صحت

تمام ویکسینز کی تین خوراکیں ’اومیکرون‘ کی شدت کم کرسکتی ہیں، امریکی تحقیق

فائزر، موڈرینا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کے بوسٹر شاٹس ہی اومیکرون کا مقابلہ کرنے والی اینٹی باڈیز پیدا کر سکتے ہیں، ماہرین

برطانیہ کے بعد امریکی طبی ماہرین نے بھی کہا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ فائزر، جانسن اینڈ جانسن یا موڈرینا ویکسینز کی دو خوراکیں ’اومیکرون‘ سے تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔

تین امریکی ہسپتالوں اور طبی تحقیقی اداروں کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی تین خوراکیں ’اومیکرون‘ کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق میساچوٹس جنرل ہسپتال، ہاورڈ یونیورسٹی اور میساچوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ویکسینیشن کروانے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے افراد میں اتنی طاقتور اینٹی باڈیز نہیں بن پا رہیں جو ’اومیکرون‘ کی شدت سے محفوظ رکھیں۔

ماہرین کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے منظور کی گئی تینوں ویکسینز یعنی فائزر، موڈرینا اور جانسن اینڈ جانسن کی کم از کم تین خوراکیں لینے والے شخص میں ’اومیکرون‘ کی شدت کم ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے تحقیق کے دوران ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے افراد کے ڈیٹا جائزہ لیا جب کہ جانسن اینڈ جانسن کی ایک ہی خوراک لینے والے افراد کے ڈیٹا کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا۔

ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اومیکرون‘ جیسے متعدی پھیلنے والی کورونا کی قسم سے بچنے کے لیے ویکسین کا بوسٹر ڈوز لگوایا جائے تو نتائج بہتر آ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویکسین کی تین خوراکیں ’اومیکرون‘ کی شدت کم کرتی ہیں، ماہرین

امریکی ماہرین نے اپنی تحقیق میں برطانوی ماہرین کی گزشتہ ہفتے کی گئی تحقیق کا حوالہ بھی دیا جس میں ماہرین نے بتایا تھا کہ فائزر سمیت آسترزینیکا کی تین خوراکیں سے ’اومیکرون‘ کی شدت کم ہو سکتی ہے۔

برطانوی ماہرین کی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا تھا کہ ویکسین کی تین خوراکیں لینے والے افراد ’اومیکرون‘ کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسے افراد میں 75 فیصد علامات ظاہر ہی نہیں ہو پاتیں۔

دنیا بھر کے ماہرین ںے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ‘اومیکرون‘ کورونا کی اب تک کی سب سے متعدی قسم ہو سکتی ہے اور اگلے تین ماہ تک دنیا کے نصف کورونا کے مریض مذکورہ وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

تاہم اب تک کے آنے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ فوری طور پر تین ہفتے گزر جانے کے باوجود ’اومیکرون‘ کے پھیلاؤ میں تیزی نہیں آ رہی۔

’اومیکرون‘ کی تشخیص گزشتہ ماہ 25 یا 26 نومبر کو پہلی بار جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی اور اب تک مذکورہ قسم دنیا کے 5 دجن سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے، تاہم اس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد اندازوں سے کم ہے جب کہ اس سے ہونے والی اموات بھی کم ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔

’اومیکرون‘ سے متعلق جنوبی افریقی ماہرین کی اہم تحقیق سامنے آگئی

ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، عالمی ادارہ صحت

’اومیکرون‘ سے متاثرہ شخص کے زیادہ بیمار ہونے کے شواہد نہیں ملے، سائنسدان