سپریم کورٹ نے ملازمین کی برطرفی سے متعلق نظرِ ثانی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا
سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے نتیجے تقریباً 17 ہزار ملازمین کی برطرفی پر نظرِ ثانی کرنے کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف حکومت کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سماعت کی، محفوظ شدہ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں عدالتی فیصلے سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوئے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش انصاف اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، عدالت آئین اور آئینی حدود کی پابند ہے، یقینی بنائیں گے کہ کوئی چور دروازے سے سرکاری ملازمت میں داخل نہ ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: گریڈ 8 سے 17 کے ملازمین کی مشروط بحالی کی تجویز
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہوئی سماعت میں اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ملازمین کی مشروط بحالی سے متعلق 3 تجاویز پیش کی تھیں، عدالت نے آج کی سماعت میں اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کا ایک اور موقع دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے لیے آئین اور قانون ہی سب کچھ ہے، سرکاری محکموں میں تعیناتیوں کے چند بنیادی اصول ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعیناتیوں کے لیے ملازمت کا اشتہار، ٹیسٹ اور میرٹ شفافیت کے لیے ضروری ہیں، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سرکاری محکموں میں نوکریوں کی بندر بانٹ نہ ہو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2010 کے قانون کو خلاف ضابطہ برطرفیاں واپس لینے کے قانون کے طور پر پڑھا جائے، اس انداز میں قانون کو دیکھنے سے اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، جس سے ملازمین 1997 والی سطح پر بحال ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 16 ہزار ملازمین کی برطرفی، حکم امتناع پربحالی کی درخواست مسترد
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس کا رنگ بدل چکا ہے، اب یہ مقدمہ نظر ثانی کا نہیں بلکہ ازسر نو سماعت کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تعین کہیں نہیں ہوا کہ ملازمین کی بھرتیاں قانونی تھیں یا نہیں، استدعا ہے کہ نظرثانی درخواستیں منظورکی جائیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں، متعلقہ ادارے ہی اس حوالے سے اصل صورتحال بتاسکتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومتی تجاویزکا جائزہ ضرورلیں گے، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں، فیصلہ وہی ہوگا جو آئین، قانون اور عوام کے مفاد میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ، عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ اٹارنی جنرل نےعدالت کے سامنے تجاویز رکھی تھیں جن کے مطابق گریڈ 8 سے 17 تک کے ملازمین کے تین ماہ میں ٹیسٹ لیے جائیں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کا ٹیسٹ پاس کرنے والے ملازمین کو مستقل کر دیا جائے۔
تجویز تھی کہ جو ملازمین بحال ہوتے ہی پینشن لے رہے تھے انہیں مزید پنشن نہیں دی جائے البتہ ملازمین کو جو رقم دی جا چکی وہ ریکور نہیں کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کپا تھا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن تین ماہ میں ملازمین کے ٹیسٹ کا عمل مکمل کرے گا اور اس عمل کی تکمیل تک ملازمین کو ایڈہاک تصور کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 17 اگست کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز سابق جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے ’برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (سیرا)‘ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقی ملی تھی۔