شہریوں کے تحفظ کیلئے طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی، حامد کرزئی
کابل: سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان نے افغان دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ انہیں اس کی دعوت دی گئی تھی، مبینہ طور پر حامد کرزئی نے ہی طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایک انٹرویو میں اشرف غنی کے اچانک ملک چھوڑ جانے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے طالبان کو شہر میں داخل ہونے کی دعوت دی تاکہ آبادی کا تحفظ کیا جاسکے اور ملک کو افراتفری سے بچایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں:اشرف غنی کے کابل چھوڑنے سے قبل پاکستان سے فون کال آئی تھی، امریکی میگزین
اشرف غنی کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی حکام بھی ملک چھوڑ چکے تھے، حامد کرزئی نے جب وزیر دفاع بسم اللہ خان سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا کہ کتنے حکومتی اراکین موجود ہیں تو انہیں معلوم ہوا کہ کوئی موجود نہیں، یہاں تک کہ کابل کے پولیس چیف بھی موجود نہیں تھے۔
اس صورتحال میں بسم اللہ خان نے حامد کرزئی سے بھی دریافت کیا کہ کیا وہ کابل چھوڑنا چاہتے ہیں؟ جس پر 13 سال تک ملک کے صدر رہنے والے حامد کرزئی نے کابل چھوڑنے سے انکار کردیا۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کے چلے جانے سے دارالحکومت میں طالبان کے داخلے کے حوالے سے منصوبہ بندی کو درہم برہم کردیا۔
خیال رہے کہ حامد کرزئی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ ایک معاہدے پر کام کررہے تھے جس کے تحت طالبان کو کچھ شرائط کے ساتھ دار الحکومت میں داخل ہونے دیا جاتا اور طالبان کے قبضے سے ایک روز قبل14 اگست سے اس معاہدے کے امکانات نظر آنا شروع ہوچکے تھے۔
مزیدپڑھیں: سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی میں فون پر آخری بات کیا ہوئی تھی؟
اس ضمن میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی سے ملاقات کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ شراکت اقتدار کے معاہدے کے لیے دیگر 15 افراد کے ہمراہ اگلے روز قطر روانہ ہوں گے۔
اس وقت طالبان کابل کے مضافات میں موجود تھے لیکن حامد کرزئی کے مطابق قطر میں موجود طالبان قیادت نے وعدہ کیا تھا کہ جب تک معاہدہ نہیں ہوجاتا ان کے جنگجو شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔
حامد کرزئی کے مطابق 15 اگست کی صبح وہ دیگر افراد کے ناموں کی فہرست کا انتظار کررہے تھے، اس وقت دارالحکومت میں بے چینی کا ماحول تھا اور طالبان کے قبضے کی افواہیں پھیلنے لگیں، جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا تو بتایا گیا کہ طالبان شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔
حامد کرزئی کے مطابق دوپہر تک طالبان کا بیان آیا کہ ’حکومت کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے‘۔
یہ بھی پڑھیں:افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل
تاہم دوپہر تقریباً پونے 3 بجے تک یہ واضح ہوگیا تھا کہ اشرف غنی شہر چھوڑ چکے ہیں، حامد کرزئی نے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو فون کیا، کابل پولیس چیف کو تلاش کیا لیکن سب جاچکے تھے۔
اشرف غنی کے محافظ دستے کے نائب سربراہ نے حامد کرزئی سے کہا کہ وہ محل آکر صدارت سنبھال لیں۔
تاہم حامد کرزئی نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ ان کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے برعکس انہوں نے ’اپنے بچوں کے ساتھ ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تاکہ افغان عوام جان سکیں کہ وہ سب یہاں موجود ہیں‘۔
حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کابل میں ہی رہتے تو پر امن انتقال اقتدار کا معاہد ہ ہوسکتا تھا۔
حامد کرزئی نے بتایا کہ آج کل وہ روزانہ کی بنیاد پر طالبان قیادت سے ملاقات کرتے ہیں اور دنیا کو ان سے رابطہ کرنا چاہیے، ان کے مطابق ’یہ بھی بہت ضروری ہے‘ کہ ’افغان عوام بھی متحد ہوجائیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس صورتحال کا خاتمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب افغان اکٹھے ہوں اور اپنا راستہ خود تلاش کریں‘۔