پاکستان

راؤ انوار ’جعلی‘ پولیس مقابلے کے مقام پر موجود تھے، تفتیشی افسر

مارچ 2019 میں عدالت نے راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں پر 4 افراد کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے پر فرد جرم عائد کی تھی۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ اس وقت کے ایس ایس پی راؤ انوار اس مقام پر موجود تھے جہاں نوجوان نقیب اللہ محسود اور دیگر 3 مغویوں کو ’جعلی‘ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

یہ بیان مقدمے کے دوسرے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے استغاثہ کے گواہ کے طور پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کے سامنے دیا۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے تقریباً 24 ماتحت اہلکاروں پر 13 جنوری 2018 کو نقیب، صابر، نذرجان اور اسحٰق کو ’طالبان جنگجو‘ قرار دے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) اور جیو فینسنگ سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ 13 جنوری 2018 کو رات 2 بج کر 41 منٹ سے صبح 5 بج کر 18 منٹ تک جائے وقوع پر موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: 7 گواہان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اس سے قبل 4، 5، 8 اور 9 جنوری کو بھی نیو سبزی منڈی پولیس چوکی کے ارد گرد بھی ان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

تفتیشی افسر کے مطابق نقیب اور دیگر افراد کو اس پولیس چوکی میں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ سی ڈی آر اور جیو فینسنگ سے واقعے سے ایک روز قبل جائے وقوع پر شکیل فیروز، اظہر اور امان اللہ مروت نامی پولیس افسران کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا۔

انہوں نے کہا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 161 کے تحت گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن کی روشنی میں پولیس اہلکار ان پر عائد الزامات میں ملوث پائے گئے۔

بیان ریکارڈ کروانے کے بعد جج نے دفاع کی جانب سے ایس ایس پی رضوان احمد سے جرح کے لیے مقدمے کی سماعت 3 جنوری 2022 کو طے کردی۔

استغاثہ کے مطابق مقدمے میں شامل پولیس اہلکاروں نے نقیب اور دیگر افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا اور بعد میں انہیں دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے قتل پر سول سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ان ہلاکتوں کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب کیس میں راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے، جبران ناصر

راؤ انوار کی جانب سے ہلاک شدگان کے دہشت گرد ہونے کے دعوے کے برعکس، عدالت نے نقیب اور دیگر افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ خارج کردیا۔

مارچ 2019 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں پر 4 افراد کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے اور ان سے اسلحے اور دھماکا خیز مواد کی جعلی برآمدگی پر فرد جرم عائد کی تھی۔

اس کے علاوہ امان اللہ مروت، شیخ محمد شعیب، گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، رانا شمیم اور ریاض نامی پولیس اہلکاروں کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔


یہ خبر 15 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر رشتہ ازدواج میں بندھ گئے

ماورائے عدالت قتل کے 72 واقعات میں طالبان کا ہاتھ ہے، اقوام متحدہ

پُرتشدد انتہا پسندی کو روکنے کیلئے پہلی پالیسی کا مسودہ تیار