نقطہ نظر

جمہوری کانفرنس میں عدم شرکت، اب تو چینی بھی ہمیں سمجھ گئے ہیں

قرض کی معیاد میں توسیع کرانی ہوگی تو ہم کو پھر کہنا ہوگا کہ آئرن برادر شہد سے میٹھے ایک ذرا سائن تو کر، سال اک مزید چاہیے۔

’چین سب سے مشکل چیلنج ہے اور ہمارے لیے مسابقت کا اگلا میدان ہے۔ وہاں سے ہم پر سب سے زیادہ ڈیجیٹل اٹیک ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ابھرتا اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی بے پناہ خواہش رکھتا چین، ملکوں کو قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے۔ مقروض ملکوں کو دباؤ اور مارکیٹوں کو اپنے اثر میں لا رہا ہے۔

’ہم ٹیکنالوجی اور ٹیلنٹ کے ساتھ پارٹنر شپ کرکے چین اور روس جیسے اپنے بڑے حریفوں کو ٹکر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے ویسٹرن ڈیموکریٹک ویلیو کا تحفظ بھی کرنا ہے، اور ساتھ ماحولیاتی تبدیلی جیسے مشترکہ مقصد پر چین کا تعاون بھی حاصل کرنا ہے’۔ یعنی جس سے لڑنا ہے اس کے ساتھ چلنا بھی ہے۔

یہ خیالات رچرڈ مور کے ہیں جو برٹش انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی سکس (MI6) کے سربراہ ہیں۔ MI6 کا سربراہ ’سی‘ کہلاتا ہے۔ جیمز بانڈ کی فلموں میں MI6 کے ہیڈ کو ’ایم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ رچرڈ مور نے اکانومسٹ کی پوڈ کاسٹ میں شرکت کی ہے اور کافی کُھل کر بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں خفیہ رہنا ہے تو زیادہ کھل کر بولنا ہوگا۔

روس کے بارے میں بات کرتے ہوئے مور کا کہنا تھا کہ روسی سربراہ ولادیمیر پیوٹن سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد ملکوں کی خودمختاری کو محدود کرسکتے ہیں۔ اب یہ ایک مسئلہ ہے۔ یعنی اس کو بھی MI6 نے دیکھنا ہے۔

بات چونکہ انٹیلی جنس سے شروع ہوئی ہے لہٰذا حوالوں کے ساتھ ہی اسے آگے بڑھاتے ہیں۔ آبدوز خفیہ ہتھیار ہے تو تجارت اس سے بھی زیادہ خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے۔ دونوں سیکیورٹی بڑھاتے ہیں۔ آبدوز دفاع کرتی ہے تو تجارت باہمی انحصار میں اضافہ کرتی ہے۔ فارن پالیسی میگزین کی ایک رپورٹ ان جملوں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ رپورٹ اس پر بحث کرتی ہے کہ کیسے چینی امریکیوں کو ایشیا میں ہرا رہے ہیں۔

آبدوزوں کی ڈیل سے آپ کسی بھی وقت واپس ہوسکتے ہیں۔ نہیں یقین تو فرانس والوں سے پوچھیں جن کے ساتھ آسٹریلیا نے معاہدہ ختم کیا۔ تجارتی معاہدے ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہتر سمجھتے ہوں گے جو نارتھ امریکی فری ٹریڈ معاہدے کو ختم نہ کرسکے اور اس میں بس کچھ ہومیو پیتھک تبدیلیاں ہی کروا کر دل ٹھنڈا کرسکے۔

پاکستان نے حال ہی میں امریکا کی جانب سے منعقد کردہ جمہوری کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے اس میں عدم شرکت کے لیے ایک لفظ ’اسکپ‘ کا استعمال کیا ہے۔ جبکہ امریکا کے ساتھ تعاون کی وضاحت میں کئی جملے تھے۔

ایشیا ٹائم نے اس موقع پر ایک رپورٹ میں تفصیل بتائی ہے کہ کیسے کانفرنس سے 2 ہفتے پہلے چینی حکام پاکستان سے رابطے میں آئے۔ اس کے کچھ دن بعد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو رات گئے چینی ہم منصب وانگ یی کا ایک ٹیلی فون آیا۔ جس کے بعد پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی جیان نے پاکستان کو چین کا حقیقی آئیرن برادر قرار دیا۔ اس بیان کو انٹرنیشنل میڈیا نے لفٹ بھی کیا۔ عرب نیوز نے اس کو اپنی ہیڈ لائن کا حصہ بنایا۔ یو ایس نیوز نے پاکستان کی عدم شرکت کو چینی دباؤ اور کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی ایک مؤثر کارروائی بتایا۔

چینی دباؤ کی بات ذہن میں آتے ہی دھیان اردو نیوز کے ساتھ مشیرِ خزانہ شوکت ترین کے انٹرویو کی طرف جاتا ہے۔ اس انٹرویو میں ان سے جب سی پیک پر سُست رفتاری سے متعلق سوال ہوا تو شوکت ترین نے بتایا کہ ’سی پیک کا پہلا فیز ختم ہو رہا ہے۔ ہم نے چینی کمپنیوں کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں’۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی ان ادائیگیوں کے علاوہ ہم نے چین سے اسٹیٹ بینک میں پارکنگ کے لیے بھی انٹرسٹ پر قرض لے رکھا ہے۔

اس کی معیاد میں توسیع بھی کرانی ہوگی جب وقت آئے گا تو ہم کو پھر کہنا ہوگا کہ آئرن برادر شہد سے میٹھے ایک ذرا سائن تو کر، سال اک مزید چاہیے۔

اب یہاں سے جیمز بانڈ کا میوزک بجاتے ہوئے بلاگ کے شروع میں جائیں۔ دوبارہ پڑھیں کہ MI6 کے سربراہ رچرڈ مور چینی قرضوں کے جال سے متعلق کیا کہہ رہے ہیں۔ پڑھ لیا ؟ اچھا اب زیادہ دُکھی بھی نہ ہوں۔

فنانشل ٹائمز میں یوکرین کے نئے وزیرِ دفاع Oleksii Reznikov کا بیان چھپا ہے۔ اس میں وہ فریادی ہیں کہ جرمنی نے نیٹو کے ذریعے یوکرین کو اسلحہ کی سپلائی بلاک کردی ہے۔

Oleksii کا کہنا ہے کہ جرمنی کی روس کو مشتعل نہ کرنے کی پالیسی کام نہیں کرے گی۔ لیکن جرمن امریکیوں کی بھی نہیں سن رہے۔

وجہ؟ بس اتنی سی ہے کہ جرمنی انرجی کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔ وہی ٹٹ پینی دو ٹکوں کی مجبوری سستی انرجی جرمنی سے یہ پرہیز کروا رہی ہے کہ یوکرین جانے روس جانے ہمیں گیس ملتی رہے۔

اب آپ اوپر آبدوز اور تجارت دونوں دفاع بڑھاتی ہیں والے جملے پڑھیں، سمجھیں۔ ہم بھلا کیا بیچتے ہیں۔ بس دکھ یہ ہے کہ چینی بھی سمجھ گئے ہیں کہ ہم کیسے کتنی جلدی کون سی چابی چلنے پر ساری بات مان جاتے ہیں اور پھر امریکیوں کے بھی آگے کھڑے ہوسکتے ہیں۔

وسی بابا

دیس دیس کی اپنے دیس سے جڑی باتیں دیسی دل سے کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: WisiBaba. انہیں ٹوئیٹر پر فالو کریں WisiBaba.

آپ کا ای میل ایڈریس wisinewsviews@gmail.com ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔