نقطہ نظر

پاکستان کی سیاسی بساط

پی ٹی آئی مہنگائی اور ابتر حکمرانی پر عوامی غصے کے طوفان سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگی؟ حزب اختلاف صورتحال سے فائدہ اٹھاسکتی ہے؟

اسلام آباد کے ڈی چوک پر ٹریفک جام ہے اور کسی کو پتا نہیں کہ راستہ کب اور کیسے بحال ہوگا۔ کیا پی ٹی آئی بڑھتی مہنگائی اور ابتر حکمرانی پر عوامی ناراضی کے طوفان سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا حزبِ اختلاف مل کر صورتحال سے فائدہ اٹھاسکتی ہے؟ اور اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟ ای او ایس نے اہم کھلاڑیوں کے طرز عمل اور ان کے اندازوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔۔۔

اسلام آباد سخت سیاسی دھند کی لپیٹ میں ہے اور اگلے چند ہفتوں کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے کچھ بتایا نہیں جاسکتا۔ حالیہ مہینوں میں ہونے والے واقعات نے مستقبل سے متعلق متعدد اندازوں کو بدل کر رکھ دیا ہے، حتیٰ کہ بہترین منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے، اور ایسی اتھل پتھل پیدا ہوئی ہے جو عام انتخابات تک کے لیے ایک نئے منظرنامے کو جنم دے سکتی ہے۔

اہم سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا المیہ تو اعلیٰ درجے کا ہے: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اپنے گورننس اور صورتحال پر قابو پانے سے متعلق مسائل کی وجہ سے ہچکولے کھا رہی ہے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کے بعد سے گھبرائی ہوئی پھڑپھڑاتی حکومت مسلسل خوف و ہراس کے سائے میں نظر آتی ہے۔ حکومت کی قسمت اس کے اپنے ہاتھوں سے زیادہ اس کے ان مخالفین کے ہاتھوں میں ہے جو اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کچھ ماہ پہلے تک اپوزیشن کو سسٹم سے از روئے استعارہ باہر رکھا گیا البتہ ان کے لیے مواقع کی بحالی کے امکانات نظر آنے لگے ہیں۔ مگر امکانات اتنے زیادہ روشن نہیں اور آپشنز بھی واضح طور پر نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کی صداؤں اور روشنیوں کا کھیل یونہی چل رہا ہے۔ اب تک تو یہی صورتحال ہے۔ وجہ: کچھ واضح نہیں کہ اگر ان ہاؤس تبدیلی واقع ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کی جگہ لینے والا کون ہوسکتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اپنی خاموشی برقرار رکھے ہوئے ہے لیکن اس خاموش پن میں بھی ایک بے چینی سی پل رہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر رویے نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں ایک خلش پیدا کردی ہے۔ مگر سسٹم کے توازن کو بگاڑنے سے باز رہنے والے کسی مناسب آپشن کی غیرموجودگی میں کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ اب تک تو یہی کہا جاسکتا ہے۔

سیاسی راستے بند ہیں اور ڈی چوک پر سیاسی ٹریفک جام ہے۔ تمام کھلاڑی ہارن بجانے، چیخنے چلانے اور اشارے کرنے میں مصروف ہیں مگر کوئی بھی اپنی گاڑی پیچھے ہٹانے اور بند راستے کو کھولنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔

وفاقی دارالحکومت میں آخر ہو کیا رہا ہے؟ اور کیا فضا میں تبدیلی کی بو آ رہی ہے؟ جواب جاننے کے لیے ہمیں اس گیم آف تھرونز میں شامل مرکزی کھلاڑیوں کی سوچ اور ان کے طرز عمل گہرائی سے پرکھنا ہوگا۔

پی ٹی آئی حکومت

ادھورے بیانات کو مدنظر رکھیں تو حکومت کی کشتی بیچ منجھدار میں نظر آتی ہے۔ معیشت کی غیرمستحکم صورتحال، اور افراط زر میں آنے والی شدت حکومت پر مائیک ٹائسن کے مکوں جیسے وار کرکے نڈھال کر رہی ہے۔ چند حکومتی چہروں نے تو اب بہادری کا مکھوٹا پہننا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہر ہفتہ جب وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کا رخ کرتے ہیں تو انہیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ آئندہ عام انتخابات 2023ء کے آخری حصے میں ہونے ہیں مگر پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں نے ابھی سے ہی یہ محسوس کرنا شروع کردیا ہے کہ اگر حکومت آنے والے مہینوں تک برقرار رہتی ہے تو بھی آئندہ کچھ عرصے میں صورتحال کی بہتری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین بھلے ہی بہتری کی لاکھ یقین دہانیاں کروائیں ان پر چند کو تو اعتماد ہے مگر بڑھتے خساروں، بھڑتی افراط زر، کمزور ہوتی روپے کی قدر اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سختیوں کا مہلک کامبی نیشن ناکامیوں، مایوسیوں اور غصے کا ایک ایسا طوفان پیدا کررہا ہے جو کہ حزب اختلاف کی حکومت کو گرانے کی مہم کو تقویت دے سکتا ہے۔

اس کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو روز اول سے گورننس میں مشکل کا سامنا رہا ہے مگر گزشتہ 3 برسوں میں اس نے اپنے وجود کو اس قدر خطرے میں نہیں پایا جس قدر آج پا رہی ہے۔

جب تک حکمراں جماعت کے ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں تھے تب تک تو اسے پی ڈی ایم کی حکومت گرانے کی کمزور کوششوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ سیاسی بندھن پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں کم نشستوں، یا اپنے اتحادیوں کی وفاداری یا پھر خارجہ پالیسی کی رسا کشی کی پرواہ کیے بغیر ایک کے بعد دوسرے بحران سے نکالنے میں مددگار رہا۔

جب کبھی پی ٹی آئی قیادت پھلسی یا ڈگمگائی تو اسٹیبشلمنٹ نے اس کو منہ کے بل گرنے سے پہلے تھام لیا کرتی۔ یہ ایک ایسا تعلق تھا جس میں پیار، سہارے، قدردانی کی کوئی کمی نہیں تھی، آگے چل کر یہ سب باتیں وقتی ثابت ہوئیں۔

اس تعلق کے دو فیصلہ کن عناصر کی اہمیت بڑھ رہی ہے: پہلے عنصر کا تعلق اقتصادی صورتحال اور پی ٹی آئی کی ان شدید معاشی طوفانوں میں سے کشتی پار لگانے کی اہلیت کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے ہے۔ دوسرے عنصر کا تعلق پی ٹی آئی قیادت اور اسٹیبشلمنٹ کی اعلیٰ کمانڈ کے مابین تعلقات کی نوعیت میں آنے والی تبدیلی سے ہے۔ آنے والے ہفتوں میں یہ دونوں عناصر پرکھے جائیں گے۔

اگرچہ اقتصادی اعداد وشمار مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی کس طرح ریاست کے امور کو چلا رہی ہے؟ اس حوالے سے طاقتور حلقوں کے اندر پائی جانے والی بے چینی کی یہ کوئی واحد وجہ نہیں ہے۔ وزارت خزانہ کے وزیر، مشیر اور سیکریٹری کے اہم عہدوں پر ہونے والے بار بار رد و بدل کو فیصلہ سازی کے عمل میں موجود گمبھیر صورتحال کی علامت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 3 سالوں میں پانچویں خارجہ سیکریٹری کو ماہ کے اوائل میں خاموشی میں لپٹی وجوہات کے تحت تبدیل کردیا گیا تھا۔

تاہم ٹریژری بلوں کے تناظر میں لیے گئے چند غلط فیصلے بھی زیر گفتگو رہے ہیں جس کے باعث حکومت نے مہنگے داموں پر خریداری کی اگر فیصلہ ایک دن پہلے لیا جاتا تو اتنے زیادہ داموں پر خریداری نہیں کرنی پڑتی۔ اگر یہی غلطی ایک بار ہوتی تو اسے ایک غلط فیصلے سے تعبیر کیا جاتا مگر وزارتِ خزانہ میں تو ایک ایسا رجحان دیکھنے کو ملتا ہے جس میں بار بار بے ربطگی، مواصلاتی فقدان اور بدانتظامی کی مثالیں ملتی ہیں۔

وزارت خراجہ اور اسٹیٹ بینک پاکستان کے درمیان اسی طرح کے مسائل کے بارے میں بھی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ چنانچہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر کھڑا کرنے کی مجموعی حکمت عملی کے بارے میں نئے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما سے جاری 'پیداواری بجٹ' پر سینہ پھولانے اور شادیانے بجانے کا سلسلہ اب اعتماد کی دوراندیشی سے زیادہ اب یہ سبق سکھانے لگا ہے کہ کمزور پہلوؤں کو ڈسنے والی ستم ظریفی کیا ہوتی ہے۔

کسی وقت میں پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان پائے جانے والے قریبی تعلقات بھی خرابیوں کا شکار ہیں۔ ایسے معاملات کی جب بات آتی ہے تو ٹھوس معلومات کا ہمیشہ فقدان رہتا ہے مگر درالحکومت کی نوعیت ایسی ہے کہ سرگوشیوں سے اگرچہ تفصیلات تو برآمد نہ ہوں مگر بڑی حد تک معاملے کا ادراک ضرور ہوجاتا ہے۔ اس وقت جو بات سمجھ آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومتی سفیروں کی سوچی سمجھی اور نپی تلی کوششوں کے باوجود بھروسے کی کمی سے پیدا ہونے والا خلا پُر نہیں ہوپا رہا ہے۔

آنے والے سالوں میں یہ تعلقات مزید آزمائش سے گزریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو نومبر میں نئے آرمی چیف تعینات کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر سابق وزرا اعظم ایک ہی وقت میں شادمان ہوئے اور ماتم کناں بھی ہوئے۔ فیصلے میں ابھی تقریباً ایک سال کا وقت ہے لیکن یہ معاملہ اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ سیاسی تالاب پر ابھی سی لہریں نمودار ہونے لگی ہیں جو مختلف منظرناموں کو پیدا کر رہی ہیں جن کے اثرات آئندہ ہفتوں میں سب کے سامنے ہوں گے۔

مگر پی ٹی آئی حکومت خود کو فی الحال گزشتہ مہینوں میں کیے گئے فیصلوں کے اثرات سے نمٹنے کی قابل رشک حالت میں نہیں دیکھ رہی ہے۔ اگر حزب اختلاف کسی نہ کسی طرح ایک ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے جہاں معاملہ نمبر گیم تک پہنچ سکتا ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ان کوششوں سے خود کو الگ رکھتی ہے تو پھر حکومت کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنے ممبران کا ہاتھ پکڑے اور اپنے اتحادیوں کو پوری شدت سے تھام لے تاکہ وہ ہوا کا رخ بھانپ نہ سکیں اور ایسے فیصلوں سے باز رہا جاسکے جو پارٹی کو نقصان پہنچاتے ہوں، وہی پارٹی جو کسی وقت میں یہ سمجھتی تھی کہ اس سے کبھی غلط فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے داخلی تنازع کی پیچیدگیاں کبھی مشکلات کا باعث نہیں بنیں۔ جوجماعت کبھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب اپنا ایک الگ مہربان رویہ روا رکھنے کے باعث مشہور تھی وہ اب ایک ایسی سیاست کا برانڈ بن چکی ہے جو آنے والے دنوں میں کسی نہ کسی موقعے پر یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا مسلم لیگ (ن) دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے یا نہیں یا ایک بار پھر ان کھلاڑیوں کے ہاتھوں پٹخ دی جائے گی جو اس جماعت کی شفاف اور منصفانہ انتخابات میں ممکنہ انتخابی قوت سے خائف ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات نمایاں ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز بدلتے حالات کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ ای او ایس نے اس گروپ میں شامل متعدد افراد سے بات کی جن کا یہ ماننا ہے کہ ملکی منظرنامے پر نمودار ہونے والی یہ صورتحال دراصل ان کے لیڈر کے مؤقف کی تائید ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ وقت ان کے حق میں ہے۔

ان کے مطابق اب جبکہ پی ٹی آئی اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی نے ان کی جماعت کے لیے حکومت کو گرانے کے مواقع فراہم کررہی ہے لیکن قیادت کا یہ واضح مؤقف ہے کہ وہ نئے انتخابات کے مطالبے سے قطعی پیچھے نہیں ہٹے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر کہتے ہیں کہ، 'ان ہاؤس تبدیلی کو کسی بھی لحاظ سے دیکھ لیجیے، یہ عمل ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔' وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کا حصہ بننے سے مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات تک خسارے میں ہی رہے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی خراب حکمرانی کا ملبہ نئی مخلوط حکومت پر گرے گا اور اس کا خمیاز انتخابات میں بھگتنا پڑجائے گا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ، 'پی ٹی آئی اور ان کے حامیوں کو ان کے پیدا کردہ بگاڑ سے نمٹنے دینا چاہیے اور تب تک ہم انتظار کرسکتے ہیں۔' مگر کیا یہ اتنا سادہ سا معاملہ ہے؟

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا خیال ہی پارٹی کے اندر موجود 'نظریاتیوں' کو بے چین کردیتا ہے مگر بہت سوں کو یہ بھی لگتا ہے کہ سیاست امکان کے فن کا نام ہے۔ اب سوال کا رخ ایسی کسی امکانی ڈیل کی مشتملات کی طرف مڑ جاتا ہے۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو وہ کون سی چیز ہوگی جو مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملانے اور پی ٹی آئی حکومت دروازہ دکھانے کے لیے راضی کرے گی؟ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پارٹی کے اندرونی مباحثے بند گلی تک پہنچ جاتے ہیں۔

سخت گیر پارٹی ممبران کہتے ہیں کہ: تمام 'جھوٹے' اور سیاسی مقاصد کے تحت نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دائر مقدمات کو ختم کیا جائے، یہ اعتراف کرتے ہوئے ان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی کی جائے کہ پاناما پیپرز کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ غلط ہوا، نئے انتخابات کروائے جائیں، اسٹیبشلمنٹ سیاسی عمل سے دوری اختیار کرے اور یہ یقین دہانی کروائے کہ وہ انتخابی عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔ اور ہاں، تمام غلطیوں کی معافی بھی مانگے۔ اگر دوسرا فریق ان شرائط پر راضی ہے تو مسلم لیگ (ن) ہاتھ ملا سکتی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کا حصہ رہنے والے ایک پارٹی پارلیامنی ممبر کہتے ہیں کہ 'ہمیں ان پر اعمتاد نہیں ہے۔ جب کبھی بھی ہمارے رہنماؤں نے ان سے رجوع کیا ہے تو اس کا نتیجہ ان کی قید کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔' ان کے مطابق چونکہ کوئی ضامن تو ہے نہیں لہٰذا دوسرے فریق کو کسی قسم کی ڈیل سے پہلے شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔

بلاشبہ مذکورہ بالا مطالبات بہت بھاری ہیں۔ شاید پارٹی قیادت اپنے وزن سے زیادہ وار کرنا چاہتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ مجبوریوں کے بوجھ سے آزاد ہے۔ پارٹی کے سینئر ممبران کہتے ہیں کہ پارٹی بغیر دراڑیں ظاہر کیے اپنے بدترین وقتوں سے گزری ہے۔ پنجاب میں اس کی انتخابی موجودگی ناقابل تسخیر رہی ہے اور اگلے انتخابات میں طاقتور ترین امیدوار ثابت ہوگی۔ اگر بدترین وقتوں کے دوران پارٹی اپنے مطالبات پر قائم رہی تو اب کیوں ایسا کرنا چاہیے گی کہ جب سیاسی ہواؤں کا رخ بھی اسی کے حق میں ہے؟

مگر ایک پیچیدگی ہے۔

گزشتہ چند مہینوں سے والد اور بیٹی نے مخالفین پر اپنے وار کی سمت تبدیل کردی ہے۔ اگرچہ مریم سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو ان کا نام لے کر ہدف تو بنا رہی ہیں مگر ان کے زبانی حملوں میں اسٹیبشلمنٹ کی دیگر شخصیات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند پارٹی کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ افراد کے نام لینے اورانہیں ادارے سے الگ کرنے کی حکمت عملی کے ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔ تاہم یہ ایک پرخطر حکمت عملی ہے کیونکہ جن کے نام لیے جا رہے ہیں وہ دوبارہ طاقتور عہدوں پر لوٹ بھی سکتے ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں منظرنامے میں پارٹی کے عملیت پسند افراد نمودار ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسی سخت شرائط جو ڈیل میں رکاوٹ پیدا کریں ان کے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے پانے کا یہی اچھا موقع ہے۔ مگر وہ مرکز حتیٰ کہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت میں شمولیت کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ اس طرح انہیں صرف نقصان ہی ہوگا۔

پارٹی صدر شہباز شریف اس حساب کتاب میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں میں انہیں اندرونی متضاد بیانیوں کے بوجھ کا سامنا کرنے والی پارٹی کے اندر دقتوں کا سامنے کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو خفیہ نہیں رکھا کہ وہ پارٹی کے اسٹیبشلمنٹ سے معاملات بگاڑنے کے بجائے معلامات بنانے کے حق میں ہیں۔

گزشتہ 3 برسوں کے دوران وہ اپنے اس مؤقف پر قائم رہے ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے بھائی سے راہیں جدا کرنے کا کبھی نہیں سوچا۔ گزشتہ 3 برسوں کے دوران طویل مدتوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے جانے کے باوجود وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے برقرار رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ پارٹی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نواز شریف کو جیل سے باہر نکالنے اور لندن بھیجنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

تاہم موجودہ پیچیدہ اور الجھے ہوئے سیاسی منظرنامے میں اگر ملک کا سب سے اعلیٰ عہدہ خالی ہوتا ہے تو شہباز شریف کو سب سے مناسب آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل کے سیٹ اپ کی رہنمائی کرنے کے لیے پارٹی نے ان کو چن لیا تو سسٹم کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو وہ قابل قبول ہوں گے۔

ان کی قابل اور مؤثر گورننس کے ٹریک ریکارڈ نے انہیں خاص مقام بخش دیا ہے، حتیٰ کہ وہ ان لوگوں میں مقبولیت رکھتے ہیں جنہوں نے دیگر جماعتوں کو ووٹ دیا تھا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز صنعت کار جنہوں نے بمع اہل عیال 2018ء کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی انہوں نے پنجاب میں گزشتہ تین برسوں کی گورننس کا حال دیکھ کر حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اس بار مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں، 'بشرطیکہ سربراہی کے لیے شہباز شریف کو نامزد کیا جائے۔'انہوں نے کہا۔

تاہم شہباز شریف سے متعلق فیصلے نواز شریف کی مرضی سے جڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ منظرنامے کو دیکھتے ہوئے کچھ کہا نہیں جاسکتا، حتیٰ کہ پارٹی بھیدیوں کے مطابق پارٹی کے اندر نواز شریف کو تازہ مواقع کے پیش نظر تھوڑی لچک دکھانے کا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ مگر اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر کھلاڑیوں کے خدشات کو دور کرتے ہوئے قبل از وقت نئے انتخابات کے لیے کس طرح راہ ہموا کی جائے۔ اگر پارٹی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے کا کوئی قابل بھروسہ ذریعہ موجود ہے تو بھی وہ خفیہ رہا ہے حتیٰ کہ پارٹی رہنماؤں کی نظروں سے بھی اوجھل ہے۔

داخلی پیچیدگیوں اور قیادت کی تبدیلی کے بارے میں ہونے والی باتوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) موجودہ پیچیدہ صورتحال کا مرکزی کھلاڑی بنا ہوا ہے۔ اس کے عوامل اور فیصلے ڈی چوک پر موجود ٹریفک جام کو گھٹا سکتے ہیں اور اگلے چند ماہ کے واقعات کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ مگر پارٹی بھیدیوں سے ہونے والی مفصل گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کوئی واضح فیصلہ لینے سے قاصر ہے۔ ہچکچاہٹ برقرار ہے، جس کا فائدہ پی ٹی آئی حکومت کو ہورہا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) تخت نشینی کے لیے بے چین ہے۔

سال کی ابتدا میں پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرکے اپنی الگ راہ چن لینے کے بعد سے پی پی پی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ یہ جماعت بھلے ہی اس بات سے انکاری ہو لیکن یہ اسٹیبشلمنٹ کی منظور نظر بننے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے اور اب یہی جماعت ممکنہ متبادل سیاسی فریم ورک کے اندر توجہ کا نیا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جو کھیل پی پی پی کھیل رہی ہے وہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔

اس پیچیدگی میں یہ خواہش پنہاں ہے کہ پی ٹی آئی کو اس کے سہاروں سے الگ کرتے ہوئے مرکز میں تبدیلی کو ممکن بنایا اور اگلے انتخابات تک عبوری مدت کے لیے آمادہ شراکت داروں پر مبنی اتحاد (Coalition of the willing partners) کو تشکیل دیا جائے۔ اگر حزب اختلاف میں شامل سب سے بڑی جماعت کے طور پر مسلم لیگ (ن) اس اتحاد کی سربراہی سے انکار کرتی ہے تو پھر پی پی پی نا چاہتے ہوئے اپنی خدمات کی پیش کش کردے گی۔ یہ خواہش بہت بڑی ہے لیکن اس کی تکمیل ایک اکیلی پی پی پی کی صلاحیتوں کے بس سے باہر ہے۔

مگر سابق صدر آصف علی زرداری کو اپنی ٹوپی سے انتخابی خرگوش نکالنے کے لیے کب صلاحیت کا محتاج ہونا پڑا ہے؟ اسی وجہ سے ایک ایسا محتاط قدم اٹھ سکتا ہے جو اہم کھلاڑیوں کو ایک ایسے نتیجے کی طرف دھکیل دے گا جس میں سب کو اپنا اپنا حصہ مل جائے گا۔خیبرپختونخوا پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے پی پی پی کی ضرورت سے زیادہ کوششوں کو نوٹ کیجیے۔ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں وہاں ایک کامیاب جلسہ کیا جس نے پارٹی کو صوبے میں اپنی جڑیں مزید پختہ کرنے کا حوصلہ بخشا ہے کہ جہاں روایتی طور پر پی پی پی کی معقول موجودگی ہوا کرتی تھی۔

پنجاب میں قدم جمانے کی کوششوں کا بھی جائزہ لیجیے۔ حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی پی پی پی کے حوصلے بلند کیے ہیں اور پارٹی اس صوبے میں توجہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جہاں کسی وقت میں بھٹو کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اگرچہ پی پی پی کا نامزد امیدوار ضمنی انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکا مگر 30 ہزار کے لگ بھگ ووٹ قابل تشفی ہیں کیونکہ 2018ء کے انتخابات میں ان کے امیدوار نے صرف 5 ہزار ووٹ ہی حاصل کیے تھے۔ یہ مانا کہ پی ٹی آئی دوڑ سے باہر تھی مگر لاہور کے مرکز سے پی پی پی امیدوار کا 30 ہزار ووٹ حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ سمجھنے میں بہت سوں کو مشکل پیش نہیں آئے گی۔

مگر حقیقی تحفہ تو جنوبی پنجاب ہے۔ پی پی پی قیادت کا اندازہ یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل جس طرح اس علاقے کے الیکٹیبلز پی ٹی آئی کی گاڑی میں سوار ہوئے تھے ٹھیک اسی طرح اگر پی پی پی انہیں اپنی گاڑی میں سوار کرکے یہاں سے قومی اسمبلی کی تقریباً 4 درجن نشستیں حاصل کرلیتی ہے تو یہ کامیابی پی پی پی کو مرکز میں اقتدار کی دوڑ میں اہم کھلاڑی بنانے کے لیے کافی ہوگی۔

مگر انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے سے متعلق چھوٹے سوال کا جواب دینا ہوگا۔ پی پی پی کو یقین ہے کہ سب پر بھاری اسٹیبلشمنٹ کو اب حکومت سے اپنا دست شفقت اٹھانا پڑے گا۔ یہ وہ ایک وجہ ہے جس کے باعث پی پی پی نے اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر اسٹیبلشنٹ کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے سے انکار کرتے ہوئے پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرلی تھیں۔

اس جماعت نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو پُر کردیا ہے اور انہیں سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے میں مشکل پیش نہیں آ رہی جو پی ٹی آئی کے لیے انہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پی پی پی اس خیال کو ہوا دینا چاہتی ہے کہ ہوا کا رخ ایک بار پھر ان کے حق میں ہے اور اس ہوا کے زور پر وہ متاثرکن نمبر گیم مکمل کرسکتی ہے۔

مگر پی پی پی کو مسلم لیگ (ن) سے کوئی خاطر خواہ رد عمل نہیں مل رہا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے عملیت پسند لوگ بلاول بھٹو زرداری سے رابطے میں ہیں اور حتیٰ کہ پنجاب اور مرکز میں ہونے والی ان ہاؤس تبدیلی کی ممکنہ مثبت و منفی نتائج پر تبادلہ خیال بھی کرچکے ہیں مگر سخت گیر افراد اس عمل کے مخالف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے نمبروں کے بغیر پی پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی لانے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی پی پی لاکھ کوششوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو عبوری سیٹ اپ کے فوائد سمجھانے سے قاصر رہی ہے۔

یوں سمجھیے کہ پی پی پی اس وقت مایوس کن حالات سے گزر رہی ہے۔ تخت ان سے دور نہیں لیکن اس پر براجمان ہونا محال ہے۔

اسٹیبلشمنٹ

ہائی کمانڈ گزشتہ تین برسوں سے اس بات پر زور دیتی چلی آ رہی ہے کہ پاکستان کو جمہوری استحکام اور تسلسل درکار ہے۔ کئی سینیئر شخصیات نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حکومتوں کو ان کی پانچ سالہ مدت سے پہلے گرانے کی روایت سسٹم کے لیے نقصاندہ ثابت ہوئی ہے۔

ظاہری طور پر تو سب کچھ ٹھیک دکھائی دیتا ہے۔ معمول کی ملاقاتوں اور بریفنگوں کا سلسلہ معمول کے مطابق جاری ہے اور کارِ ریاست اپنے طریقہ کار کے مطابق انجام دیے جا رہے ہیں۔ مگر اس پرسکون سطح کے نیچے تناؤ کی چھوٹی لہر پائی جاتی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ چند اسے اعتماد کی کمی کا نام دیتے ہیں۔

بھیدیوں کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طاقتور مراکز کے درمیان رضامندی کے پیغامات کا خاموش تبادلہ ہوتا رہا ہے مگر یہ سلسلہ ان خدشات کو دور کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوا ہے کہ ایک ہی صفحہ اب اتنا زیادہ ایک نہیں رہا۔

زیادہ مشکل اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ اندر ہی اندر اٹھنے والی ان لہروں کے غیر مستحکم سیاسی صورتحال پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے میدان کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور ادارے کے مفادات کو زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کے باعث متعدد 3 ستاروں والے افسران کی تعیناتیوں میں ہونے والی دیر پر بہت سوں کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔

آخر میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے جو چاہا تھا وہی ہوا مگر سیاسی تنازع سے ادارے کے اندرونی طرز عمل پر مرتب ہونے والے اثرات نے کئی لال جھنڈیاں بلند کردی ہیں۔

مگر فی الحال ہوا میں لہراتی یہ بے ضرر سی لال یا پھر سبز جھنڈیاں کسی کارروائی کا سبب بنتے ہوئے نظر نہیں آتیں۔ اب تک ایسا کوئی ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر کسی پر اپنا دست شفقت رکھنے کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ چند برس کئی معنوں میں کافی کٹھن ثابت ہوئے ہیں اور ادارے کے مفادات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ادارے پر مزید انگلی نہیں اٹھنی چاہیے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت کے اہم حامی ہونے کی اپنی حیثیت سے محتاط انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے دیگر سیاسی کھلاڑیوں کو استعمال کرکے مرکزی حیثیت اختیار کرنی ہوگی۔

اس اقدام کا گہرائی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ کیا ایسا ہی ہوگا؟ اس سوال کا جواب شاید اگلے چند ہفتوں میں مل جائے گا۔

تو اب حالات کس کروٹ بیٹھیں گے؟

ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی ٹریفک جام شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے ایسے میں اچھے آپشن بھی دستیاب نظر نہیں آتے۔ ایک سابق وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ، 'کوئی نہ کوئی تو پیچھے ہٹے گا۔ یہ ٹریفک جام زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا۔'

اگرچہ یہ بات سچ ثابت ہوسکتی ہے مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی تین سالہ مدت کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔ حکومت کا خاتمہ بھلے ہی فوری طور پر عمل میں نہ آئے لیکن یہ امرِ ناممکن بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت اگلے چند ماہ کے بعد بھی خود کو برقرار رہتی ہے تو اس کی اہم وجہ دیگر کھلاڑیوں کی اگلے لائحہ عمل اور طرز عمل پر اتفاق رائے کا فقدان ہوگی۔

اقتصادی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہونے سے قبل آنے والے ہفتوں میں مزید بدتر ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اگر اس میں بہتری آتی ہے تو بھی شہریوں کو آگے مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سیالکوٹ سانحے نے ملک کے حالات کی خرابی کے تصور کو تقویت بخشی ہے۔ بھلے ہی حکومت نے سانحے کے بعد سخت لب و لہجہ استعمال کیا ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو خوش کرنے کی حالیہ کوششوں نے اس جماعت کو نہ صرف نظریاتی بلکہ سیاسی طور پر بھی مستحکم کیا ہے۔ پی پی پی کا حلقہ این اے 133 میں اس جماعت کے ساتھ معاہدے کے بعد بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کی انتخابی سیاست میں ٹی ایل پی کی حیثیت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ حکومت اپنے بیانیے اور سیاسی اتحاد سازی کے مطلوبات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے ایسے میں ٹی ایل پی کا اثرورسوخ حکومت کو آزمائش سے دوچار کرے گا۔

لیکن اگر پی ٹی آئی حکومت اس طوفان سے بچ کر نکلتے ہوئے بجٹ 2022ء کے پار پہنچ جاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ صورتحال کسی حد تک ایک بار پھر حکومت کے قابو میں آجائے۔ اگلے سال کے آخری حصے میں وزیر اعظم کے لیے آخری کٹھن چیلنج نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہوگا۔ اگر وہ اس چیلنج پر پورا اترے تو 2023ء کے عام انتخابات تک اپنا سفر جاری رکھنا کافی آسان ہوجائے گا۔

پاکستانی سیاست میں ایک سال کا عرصہ بہت طویل تصور کیا جاتا ہے۔ ملکی منظرنامے پر ایک ہی وقت میں متعدد متحرک عناصر کے مختلف رجحانات کے پیش نظر موجودہ حقیقی چیلنج اگلے چند ہفتوں کے دوران پیچیدگیوں سے باہر نکلنا ہے۔ اس وقت تک کسی کو بھی ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔

یہ مضمون 12 دسمبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔


لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

فہد حسین

لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔