سانحہ سیالکوٹ: پولیس نے مزید 18 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سیالکوٹ میں 49 سالہ سری لنکن فیکٹری منیجر پر تشدد اور اسے جلانے کے واقعے میں ملوث مزید 18 مرکزی ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
3 دسمبر کو فیکٹری کے ملازمین پر مشتمل سیکڑوں مظاہرین نے سری لنکن منیجر پر بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور بعد ازاں انہیں نذر آتش کردیا تھا۔
بعد ازاں فیکٹری کے 900 ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 297،201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور 11 شامل کی گئی ہیں۔
گرفتار ملزمان کو آج گوجرانوالہ کی خصوصی انسداد دہشت گردی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا جہاں پولیس نے ملزمان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیا۔
مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ڈسٹرکٹ بار کا مشتبہ ملزمان کی نمائندگی سے انکار
سیالکوٹ پولیس کے ترجمان خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ واقعے میں گرفتار مرکزی ملزمان کی تعداد 52 ہوگئی ہے، جبکہ 100 سے زائد افراد بھی زیر تفتیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کو دوبارہ 28 دسمبر کو عدالت پیش کیا جائے گا۔
سانحہ سیالکوٹ میں 34 ملزمان پہلے ہی جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔
خوفناک حملے کی مذمت
افسوسناک واقعے پر ملک بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مذمت کی اور ملزمان کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات پر جلد فیصلوں کیلئے نئے قوانین بننے چاہئیں، وزیر داخلہ
وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’ہولناک حملہ‘ قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا دن ہے، میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہو اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قانون کے دائرہ کار میں تمام ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔‘
پریانتھا کمارا کی میت 6 دسمبر کو ان کے ملک سری لنکا بھیجی گئی تھی۔
سیاسی اور عسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت ’جامع حکمت عملی‘ کے تحت مذہبی انتہا پسندی کو روکے گی تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچا جاسکے۔