برطانیہ: عدالت نے وکی لیکس کے بانی کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی
برطانیہ کی اپیلیٹ کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو امریکا بھیجنے کی اجازت دے دی۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ امریکا کی یقین دہانی اس بات کے لیے کافی ہے کہ اسانج کے ساتھ انسانی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے۔
مزید پڑھیں: برطانوی جج نے جولین اسانج کی حوالگی کی امریکی درخواست مسترد کردی
عدالت نے ماتحت عدالت کے جج کو حکم دیا کہ وہ حوالگی کی درخواست سیکریٹری داخلہ کو بھیج دے، جو برطانیہ میں قانون کے نفاذ کے امور دیکھتا ہے اور وہی جولیان اسانج کو امریکا بے دخل کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے۔
تاہم اپیلیٹ کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر اپیل کرنے کا امکان موجود ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس کے اوائل میں عدالت نے فیصلے میں جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی، جن پر امریکا نے ایک دہائی قبل خفیہ فوجی دستاویزات شائع کرنے پر جاسوسی کا الزام عائد کیا تھا۔
ڈسٹرکٹ جج ونیسا بیرائسٹر نے اسانج کو صحت کے مسائل کی وجہ سے بے دخل کرنے کی درخواست مسترد کی تھی اور کہا تھا کہ اگر اسانج کو امریکا میں سختی کے ساتھ جیل میں رکھا گیا تو وہ خودکشی کرسکتے ہیں۔
امریکا نے امریکی عدالتی نظام سے جوڑ کر اسانج کی صحت کی خراب حالت کی بنیاد پر دیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جولین اسانج بمقابلہ امریکی حکومت: کون کس پر حاوی رہے گا؟
وکیل جیمز لیوس کا کہنا تھا کہ اسانج کی ذہنی حالت خراب ہونے کی ماضی میں کوئی شکایت سامنے نہیں آئی اور وہ اس قدر شدید علیل نہیں ہیں کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے سے نہیں روک سکتے ہیں۔
امریکی حکام نے برطانوی جج کو بتایا کہ اگر وہ اسانج کو بے دخل کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں تو پھر امریکا میں سنائی گئی سزا اپنے آبائی ملک آسٹریلیا میں کاٹ سکتے ہیں۔
امریکی وکیل نے اسانج پر جاسوسی کے 17 الزامات عائد کیے تھے اور ان میں سے ایک کمپیوٹر کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فوجی اور سفارتی دستاویزات لیک کرکے وکی لیکس پر شائع کرنے کا تھا۔
قانون کے مطابق ان الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا 175 سال قید ہوسکتی ہے تاہم لیوس کا کہنا تھا کہ اس جرم کی سزا 63 مہینے سے طویل نہیں ہوگی۔
امریکا کو مطلوب جولیان اسانج اس وقت برطانیہ کی ہائی سیکیورٹی کے بیلمارش جیل میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ نومبر 2010 میں سویڈن نے جولین اسانج کے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، اس سے قبل ان سے جنسی ہراساں اور ریپ کے الزامات پر سوالات کیے گئے تھے تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ خفیہ امریکی دستاویزات کو شائع کرنے پر انہیں سویڈن سے امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 50 ہفتے کی قید
بعد ازاں دسمبر 2010 میں جولین اسانج نے برطانوی پولیس کے سامنے سرنڈر کیا تھا لیکن وہ 10 روز کی ضمانت پر رہا ہوگئے تھے تاہم حوالگی کی کارروائی کو چیلنج کرنے میں ناکامی کے بعد انہوں نے ضمانت کی خلاف ورزی کی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔
جس کے بعد اگست 2012 میں ایکواڈور کی جانب سے انہیں سیاسی پناہ دی گئی تھی اور اس کے بعد سے انہیں لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارتخانے منتقل کردیا گیا تھا۔