آصف علی زرداری کے خلاف ٹریکٹر ریفرنس کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف
قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کیس کے اصل ریکارڈ کے بغیر سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت کو چیلنج کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے مشاہدہ کرتے ہوئے جنرل پراسیکیوٹر کو ہدایت دی کہ سابقہ اپیلوں کا جائزہ لیں اور معلوم کریں کہ یہ قابل سماعت ہیں یا نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ارسیس ٹریکٹر کیس میں آصف علی زرداری کی ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی، احتساب عدالت نے 2014 میں مذکورہ ریفرنس میں سابق صدر کو رہا کیا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ فنڈز کا غیر مناسب استعمال کرتے ہوئے 5 ہزار 900 روسی اور پولش ٹریکٹرز خریدے گئے تھے، اس وقت عوامی ٹریکٹر اسکیم کے لیے ایک ٹریکٹر ایک لاکھ 50 ہزار روپے کا خریدا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: ضمانت کی درخواست پر آصف زرداری طلب
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں آصف علی زرداری کے ہمراہ ان کی اہلیہ و سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی نامزد کیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں ان کا نام ریفرنس سے خارج کردیا گیا تھا۔
چارٹ شیٹ کے مطابق حکومت نے 1994 میں درآمد شدہ ٹریکٹر کی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔
ٹریکٹر خریدنے کے معاہدے میں زرعی ترقیاتی بینک پاکستان کو مبینہ طور پر 26 کروڑ 83 لاکھ جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک ارب 67 کروڑ کا نقصان ہوا تھا۔
نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریفرنس کا حقیقی ریکارڈ غائب ہوچکا ہے۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ نیب کو یہ سمجھنے میں 7 سال لگے کہ اپیلیں بغیر اصل ریکارڈ کے فائل کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیس کا ریکارڈ غائب ہوجائے۔
چیف جسٹس نے نیب کو خبردار کیا کہ عدالت کا وقت ضائع کرنے پر ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔
جہانزیب بھروانا نے عدالت کو بتایا کہ ریکارڈ لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ منتقلی کے دوران غائب ہوا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کو میرٹ پر لگائے گئے الزامات میں بری کیا تھا، اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ نیب سیاسی طور پر متحرک تھا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب دوسروں کا احتساب کرتا ہے مگر ان کے پاس بیورو کا احتساب کرنے کا کوئی میکانزم موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ جانتے ہیں نیب کے اس عمل کی وجہ سے قومی معیشت کس حد تک متاثر ہوئی ہے؟‘
مزید پڑھیں: 'آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس': نیب 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے، فواد چوہدری
انہوں نے ریمارکس دیے کہ علاوہ ازیں یہ بلاجواز ریفرنس دائر کرنے کا عمل پاکستان کے ایک شہری کو بدنام کرتا ہے۔
عدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت دی کہ زیر التوا اپیلوں اور ریفرنسز کا جائزہ لیں اور ان میں سے صرف ان کو عدالت لائیں جس میں الزامات کے حوالے سے مناسب شواہد موجود ہوں۔
ریفرنس کی آئندہ سماعت رجسٹرار آفس کی جانب سے تاریخ مقرر کرنے کے بعد ہوگی۔