نقطہ نظر

2021ء میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بلاگز

رواں برس اس ویب سائٹ پرکم و بیش 500 بلاگز شائع کیے گئے۔ اس تحریر میں 10 سب سے زیادہ پڑھےجانے والے بلاگز کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے

ڈان بلاگز نے ہر سال کی طرح 2021ء میں بھی اپنے قارئین کے لیے تاریخ، تحقیق، سیاحت، تنقید، تخلیق، طنز و مزاح اور حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں دلچسپ تجزیوں، تبصروں اور تجربات پر مبنی بلاگز شائع کیے۔

پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں سے لوگوں نے ڈان بلاگز کی تحریروں کو پسند کیا اور ان پر اپنی تعریفی و تنقیدی تبصرے بھی لکھ بھیجے۔ مستند اور مصدقہ معلومات کی فراہمی کے لیے مضامین کو شائع کرنے سے پہلے معیار کے تقاضوں پر پرکھا گیا اور زندگی کے تقریباً تمام شعبوں کے ضمن میں تحریروں کو شاملِ اشاعت کیا گیا۔

ڈان بلاگز ٹیم اپنے لکھاریوں کی قلمی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور آن لائن مطالعے کی تشنگی بجھانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔

رواں سال ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی پر کم و بیش 500 بلاگز شائع کیے گئے۔ اس تحریر کے ذریعے ہم اپنے ان 10 بلاگز کا مختصراً تعارف پیش کر رہے ہیں جن کو 2021ء میں سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے۔


بلاگ: پاکستان کو نئی پہچان دینے والے ڈاکٹر مبشر رحمانی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟


شیما صدیقی نے یہ بلاگ معرورف پاکستانی کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر مبشر رحمانی سے متعلق لکھا ہے جنہیں 2020ء میں دنیا کے ایک فیصد بہترین محققین کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ کلیری ویٹ اینالیٹکس نے ڈاکٹر مبشر کو بہترین تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر اس اعزاز سے نوازا تھا۔

کراچی میں ابتدائی اور پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر مبشر نے 100 سے زائد تحقیقی مقالے اور تجزیاتی رپورٹس لکھیں۔ ساتھ ہی ان کے 12 تحقیقی مضامین کو کمپیوٹر سائنس کے محققین نے اپنی تحقیق میں بطور حوالہ شامل کیا۔ یعنی ان کے کام کو بطور سند استعمال کرتے ہوئے ان کے کام کو سراہا گیا۔

ڈاکٹر مبشر کہتے ہیں کہ ’بہترین محققین کی فہرست میں شمولیت کا اعزاز میرے لیے بہت اہم ہے۔ یہ پاکستان کا ہی اعزاز ہے کیونکہ میری تعلیم پاکستان ہی کی بدولت ہے۔ میں پاکستان کا چہرہ ہوں اور بحیثیت پاکستانی اور مسلمان میں بہت خوش ہوں۔ مجھے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان کی طرف سے فسٹ رینکنگ انجینئر کا اعزاز دیا گیا۔ 2 مرتبہ میرا نام تمغہ امتیاز کے لیے بھیجا گیا لیکن چونکہ میری کوئی سیاسی وابستگی نہیں اس لیے یہ تمغہ مجھے نہیں مل سکا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کی محنت اور درست راستے کا انتخاب کامیابی کی پہلی اور آخری سیڑھی ہے‘۔

لکھاری نے ان کے انجینئر بننے سے لے کر کلیری ویٹ کی تازہ فہرست کا حصہ بننے تک کی کہانی کو اپنے بلاگ میں بڑی خوبصورتی سے سمویا ہے۔


بلاگ: جب ’کے 2‘ سرنگوں ہوا


عظمت اکبر نے اپنے اس بلاگ میں دنیا کی دوسری اونچی چوٹی ’کے 2‘ کو موسمِ سرما میں زیر کرنے کی مہم اور کے ٹو پر ہونے والی دیگر مہمات کا جائزہ پیش کیا ہے۔

نیپالی کوہ پیماؤں نے 16 جنوری 2021ء کو شام 5 بجے ’کے 2‘ کو موسمِ سرما میں پہلی دفعہ سر کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ 10 نیپالی شرپاؤں کی ٹیم نے اکٹھے ’کے 2‘ کو سرنگوں کیا، اور نیپال کے مشہور شرپا Mingma G آکسیجن کے بغیر چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اسی طرح گزشتہ 7 ماہ میں 8 ہزار میٹر کی 14 چوٹیاں سر کرنے والے نرمل پرجا جو سمٹ کرنے والی ٹیم کے سربراہ بھی تھے، انہوں نے ’کے 2‘ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کیمپ تھری سے براہِ راست چوٹی تک رسائی حاصل کی اور پھر بخیریت واپس کیمپ تھری تک پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یعنی اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

لکھاری نے اپنی تحریر میں پاکستان کی مشہور چوٹیوں ’کے 2‘ اور ’نانگا پربت‘ کی گزشتہ مہمات کے دوران پیش آنے والے تاریخی و دلچسپ واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پاکستان کی مشہور چوٹیوں ’کے 2‘ اور ’نانگا پربت‘ کی تاریخ بھی دنیا بھر کے کوہ پیماؤں اور پہاڑوں سے محبت کرنے والوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کہانی تو کہیں پر کسی برف کی گہری کھائی میں گرنے کی وجہ سے کوہ پیما کے زخموں سے چور جسم کی کہانی۔ کہیں پر کسی کو بروقت آکسیجن فراہم نہ ہونے اور کبھی کسی کو بروقت ریسکیو نہ کرنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی کہانی۔'


بلاگ: قیدی نمبر 1772 اور اس کے آخری 24 گھنٹے


اقبال خورشید نے اپنے بلاگ میں ملک کی تاریخ کے 4 عشروں پرانے ایک اہم واقعے کی کہانی کو بیان کیا ہے جس کا آغاز ان کے بقول 18 مارچ 1978ء میں ہوئی تھی کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ یوں ملک کے سابق وزیرِ خارجہ، سابق صدر اور سابق وزیرِاعظم نے کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772 کی حیثیت اختیار کرلی۔

اس بلاگ میں لکھاری نے بھٹو کے آنے سے قبل پنڈی جیل کی پُراسرار سرگرمیوں، بھٹو کی زندگی کے آخری ایام، ان کی آخری صبح، آخری ملاقات، رحم کی اپیل سے متعلق باتوں، لاہور سے بذریعہ وین راولپنڈی جیل آنے والے جلاد تارا مسیح کی حالات سے لاعلمی اور آخری لمحوں میں بھٹو کی خاموشی، پھانسی گھاٹ کی جانب سفر کو مختلف حوالہ جات کی مدد سے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔


بلاگ: شُکر ہے طالبان ارطغرل نہیں دیکھتے


وسی بابا نے یہ بلاگ افغانستان سے امریکی انخلا اور اس کے نتیجے میں عالمی سفارتکاری کے منظرنامے میں ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'داعش افغانستان میں موجود ہے۔ اس سے روس بھی خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے وہ پاکستان کی صورت میں ایک اتحادی دیکھتا ہے، جس کا مفاد مشترکہ ہے۔ چینی، ایرانی، وسطی ایشیا کے ممالک سب ہی داعش کے خلاف ہیں۔

'امریکی خود تو افغانستان سے جارہے ہیں لیکن اپنی جگہ ترکی کو افغانستان کے معاملے میں بہت خاموشی اور بڑے طریقے سے آگے کیا ہے۔ ترکی کا افغانستان سے ایک لنک بنتا بھی ہے، مثلاً افغانستان کے ترکمان اور ازبک کا ترکی النسل ہونا اور رشید دوستم کا ترکی کے ساتھ اچھا تعلق ہونا پھر ترکی کا ان کی حمایت کرنا۔ ترکی بظاہر افغانستان میں ایک مؤثر کھلاڑی ثابت ہوسکتا ہے جو فوجی طاقت بھی رکھتا ہے۔ اس کے افغانستان میں مضبوط روابط بھی ہیں۔ امن مذاکرات کے لیے ایک فیصلہ کُن فریق ثابت ہوسکتا ہے اور ایک اچھا ضامن بھی بن سکتا ہے.'

دنیا کے طاقتور ممالک اور خطے کے مختلف ممالک کی افغانستان میں بڑھتی دلچسپی کے بارے میں لکھاری کہتے ہیں کہ، 'ہمارے ہمسائے افغانستان میں ہمارے 2 دوست ملک زور آزمائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں جس کے باعث ہمارے لیے مشکلات اُمڈ کر آسکتی ہیں۔ ایسے میں طالبان نے ترک کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا ہے اور آئندہ امریکی انخلا ہونے تک کسی بھی مذاکراتی عمل میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے، یہ انکار ہماری اور خود طالبان کی اپنی بہترین مدد ہے‘۔

افغانستان پر بننے والے عالمی محاذ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد انہوں نے اپنے مضمون کو ایک بڑے دلچسپ اور پُرمزاح انداز میں کچھ یوں سمیٹا ہے: 'شکر ہے طالبان کے پاس ارطغرل دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔ اگر ترکی کا نام سنتے وہ بھی ڈھیر ہوجاتے تو ہم اک نئے رولے میں پھنس جاتے۔ ہمیں اپنے گھر میں ویسے ہی کئی مسائل کا سامنا ہے کہ اس نئی ابھرتی صورتحال کو دیکھنے کی شاید ہی کسی کو فرصت ہو‘۔


بلاگ: 'شادی میں ناکامی' سے 'سی ایس ایس میں کامیابی' تک کی کہانی


سراج الدین کی اس تحریر کا موضوع نمایاں نمبروں کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد پولیس سروس آف پاکستان میں اپنی جگہ بنانے والی 26 سالہ سندس اسحٰق ہیں۔

خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع بنوں میں مقیم اور پڑھنے کا شوق رکھنے والی سندس کی شادی ناکام ہوگئی تھی۔ افسوس ہے کہ شادی کی ناکامی یا طلاق ہمارے سماج میں ایک ٹیبو تصور کیا جاتا ہے۔ سندس پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے لیکن انہوں نے اپنے والد کی'بڑے کام' کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کتابوں میں پناہ لی، یوں انہیں احساسِ تناہی دُور کرنے اور زندگی کو آگے بڑھانے کا موقع ملا۔

سندس کہتی ہیں ’میں نے اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز رکھی، میں پڑھائی میں مصروف ہوگئی تھی لیکن پھر ایک دن میرے بھائی نے پوچھا کہ تم سی ایس ایس کا امتحان دینا چاہو گی؟ مجھے ان کی بات سُن کر احساس ہوا کہ خود کو ثابت کرنے اور اپنے ملک کی خدمت کا یہ ایک اچھا موقع ثابت ہوسکتا ہے‘۔

لکھاری نے سندس کے خواتین کے نام اس پیغام کو بھی شاملِ تحریر کیا ہے کہ: 'خواتین ہمت کریں تو دنیا کا کوئی کام ان کے لیے مشکل نہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں پولیس فورس میں بہتر عوامی رابطے کے ذریعے ملک کے عوام کی خدمت کرسکتی ہوں۔ میری بات کو آنے والا وقت ثابت کرے گا'۔


بلاگ: پہلی اینگلو افغان جنگ: ایک جنگی سفر کی کتھا (دوسرا حصہ)


تاریخ کی مسافری کا شوق رکھنے والے ابوبکر شیخ نے اس سال پہلی اینگلو افغان جنگ سے متعلق 6 حصوں پر مشتمل بلاگ کا سلسلہ شروع کیا جس میں 1839ء سے 1842ء تک انگریزوں اور افغانوں کے مابین جاری رہنے والی جنگ کا تفصیلی ذکر کیا گیا۔ انگریز فوج کی جانب سے افغانوں کے قتل و غارت سے لے کر افغان سرزمین پر خود ان پر ڈھائے گئے مظالم کو باکمال منظرکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

قارئین نے اپنے تبصروں کے ذریعے سیریز کو خوب سراہا بھی ہے۔

ابوبکر شیخ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: 'نومبر 1840ء میں فرنگیوں اور امیر دوست میں جو شدید جھڑپیں ہوئیں، ان میں سے ایک میں کیپٹن فریزر کا بازو تلوار سے کٹا، کرسٹن کے سر کو سردار کے بیٹے علی شیر خان نے دھڑ سے الگ کردیا، ڈاکٹر میکڈیئر کو ایک سپاہی پیر بخش نے تلوار کے وار سے بچالیا۔ جس کے بدلے میں بعدازاں پیر بخش کو 20 ہزار روپے کا بڑا انعام بھی ملا۔ فرنگیوں کے لیے حالات پریشان کن تھے۔ دوسری طرف پیسے دوست محمد کی زمین کو روز بروز مختصر کر رہے تھے۔ جنرل سیل نے اس صورتحال میں پروان سے فوج بلانے کو بہتر سمجھا اور واپس چاریکار میں آکر تھکان دُور کی۔ پھر اچانک امیر دوست محمد کے حملے بند ہوگئے اور خاموشی چھا گئی۔'

منظرکشی کسی بھی افسانوی و غیر افسانوی کہانی میں چار چاند لگادیتی ہے اگر یہ خاصیت تاریخ کے پس منظر میں لکھی تحریر میں موجود ہو تو مطالعہ مزید دلچسپ بن جاتا ہے۔ ابوبکر شیخ نہ صرف تاریخ بلکہ گزرے وقتوں کے ماحول اور موسم کا احوال بھی پیش کرتے ہیں۔

ابوبکر شیخ اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ: 'صبح کا وقت تھا، کابل کے آسمان پر ابھی سورج نہیں اُگا تھا، ٹھنڈ کچھ زیادہ تھی، بالاحصار کے قلعے سے نیچے کابل کا شہر دھند میں لپٹا تھا۔ جنرل میکناٹن اپنے گھوڑے پر یا تو تفریح کر رہا تھا یا شاید کسی کا انتظار۔ اسی وقت دوست محمد کے ایک ساتھی نے آکر اطلاع دی کہ دوست محمد خان آیا ہے اور جب دوست محمد خان آیا تو اس نے اپنی تلوار جنرل میکناٹن کو سونپ دی۔ جنرل میکناٹن نے دوست محمد کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بیٹے 'افضل خان' کو جنگ سے روک دے'۔


بلاگ: کپتان کا دورہ سعودی عرب: نیا اسلامی بلاک بننے سے پہلے دم توڑ گیا؟


خارجی امور پر گہری نظر رکھنے والے آصف شاہد نے اپنے اس بلاگ میں رواں سال عمران خان کے دورہ سعودی عرب پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ دورہ ایسے حالات میں ہوا کہ جب تیل پر انحصار کرنے والا سعودی عرب اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کی دیگر قوموں کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور پاکستان اپنے پرانے دوست کی ناراضگی دُور کرنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دے رہا تھا۔

لکھاری نے پاک سعودی تعلقات کا مختصر لیکن جامع جائزہ پیش کرنے کے ساتھ سعودی عرب کی بدلتی سفارتی کوششوں اور مجبوریوں کا خلاصہ بھی قلمبند کیا ہے۔ اس تحریر میں 6 سال پہلے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے دور میں یمن جنگ کا حصہ نہ بننے سے لے کر او آئی سی سے متعلق شاہ محمود کے جذباتی بیان تک کی ان تمام وجوہات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو پاک سعودی تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتی رہی ہیں۔

بلاگ میں سعودی عرب کی جانب سے معاشی تعاون کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ، 'دورے کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر آسان قرضہ دینے کا وعدہ کیا اور عرب امارات اور سعودی عرب کا پہلے سے موجود 2 ارب ڈالر بھی واپس نہ لینے کی یقین دہانی کروا دی گئی۔ سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی رقم بجٹ تیاری میں تو شاید کوئی بڑی مدد نہ دے سکے تاہم موجودہ حالات میں یہ بھی بڑا ریلیف ہے کہ 2 ارب ڈالر واپس نہیں لیے جا رہے'۔

وزیرِاعظم عمران خان کے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے سے متعلق آصف شاہد لکھتے ہیں کہ، 'اعلامیے میں کشمیر پر جو کچھ کہا گیا اس سے پاکستان کشمیر پر 7 دہائیوں پرانا مؤقف بھی چھوڑ کر آگیا۔ سعودی عرب کے جتنے تنازعات تھے سب میں اس کے مؤقف کی حمایت کرکے خود کو نئے تنازعات میں پھنسانے کی بھی بنیاد رکھ لی گئی ہے اور جس سرمایہ کاری کی امید کی جا رہی ہے وہ ابھی تک کاغذوں میں ہے'۔


بلاگ: معیشت کو نقصان پہنچانے والے 5 ہزار کے نوٹ کیا پاکستان میں بند ہوسکتے ہیں؟


راجہ کامران گزشتہ کئی برسوں سے اپنے بلاگز کے ذریعے قارئین کو اقتصادی شعبے میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ نہ صرف ان کی تحریروں میں ہر پیشرفت کا جامع جائزہ موجود ہوتا ہے بلکہ اس کے ممکنہ منفی و مثبت اثرات کا احاطہ بھی کیا گیا ہوتا ہے۔

اس سال سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بلاگز میں ان کا بلاگ بعنوان 'معیشت کو نقصان پہنچانے والے 5 ہزار کے نوٹ کیا پاکستان میں بند ہوسکتے ہیں؟' شامل ہے۔

اس بلاگ میں انہوں نے بتایا کہ 'چونکہ بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ہونے کی وجہ سے اگر ایک لاکھ روپے منتقل کرنا ہوں تو 5 ہزار روپے کے 20 نوٹ درکار ہوں گے جو ایک سگریٹ کی ڈبی میں باآسانی سما سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک لاکھ روپے کے لیے ایک ہزار روپے مالیت کے نوٹ دیے جائیں تو اس مقصد کے لیے 100 نوٹ درکار ہوں گے، جبکہ اگر ایک سو روپے مالیت کے کرنسی نوٹ ہوں تو 100 روپے کی 10 گڈیاں درکار ہوں گی۔

'اسی طرح 40 ہزار کے 3 بانڈز ایک لاکھ 20 ہزار روپے بن جاتے ہیں جبکہ 25 ہزار روپے کے بانڈز ہوں تو محض 4 ہی میں ایک لاکھ روپے پورے ہوجاتے ہیں۔ مگر حکومت نے اس اہم چیز کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس طرح ہی لین دین جاری رہا۔ اب یہ رقم نہ صرف دہشتگردی کی فنانسگ اور بڑے پیمانے پر سرمائے کی منتقلی کے لیے استعمال ہوسکتی تھی بلکہ بڑی مالیت کے پرائز بانڈز منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے لیے کھلے عام استعمال ہورہے ہیں۔'

راجہ کامران بلاگ کے آخری حصے میں یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر مرکزی بینک اس بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ کو ختم کرنے کے حق میں کیوں نہیں ہے؟ ہمارے جن قارئین نے یہ تحریر نہیں پڑھی وہ اس بلاگ کو پڑھ کر اس سوال کا جواب جان سکتے ہیں۔


بلاگ: ’کے ٹو‘ حادثہ: وہ سوالات جن کے جواب کھوجنے ہوں گے!


شبینہ فراز ڈان بلاگز کے لیے موحولیات، موسمی تبدیلی، جنگلی حیات اور سیاحت سے متعلق دلچسپ اور معلوماتی تحریریں لکھتی رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس بلاگ میں ’کے ٹو‘ تسخیر کی سرمائی مہم کے دوران محمد علی سدپارہ اور دیگر 2 کوہ پیماؤں جان اسنوری اور جے پی موہر کی پُراسرار موت کے بعد اٹھنے والے سوالوں کے جواب تجربہ کار کوہ پیماؤں کی آرا کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کیے ہیں۔

لکھاری کہتی ہیں کہ، اس حوالے سے ہماری کئی کوہ پیماؤں سے بات ہوئی، اور وہ سب اس پر متفق ہیں کہ اس ساری مہم میں بہت سے واقعات غیر معمولی، غیر متوقع یا مشکوک کہے جاسکتے ہیں جن کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔

شبینہ فراز بلاگ کے آخر میں لکھتی ہیں کہ، 'محمد علی سدپارہ کوہ پیمائی کے جنون میں اب امر ہوچکے ہیں لیکن اس حادثے کے پیچھے اگر کوئی سازش تھی تو اسے ضرور سامنے آنا چاہیے۔ اگر کوئی نیپالی کمپنی مجرمانہ اور پیشہ وارانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے تو مستقبل میں اس پر پاکستان میں کام کرنے پر پابندی عائد کرکے تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔ قوم منتظر ہے کہ اس کے ہیرو محمد علی سدپارہ کو انصاف ملے'۔


بلاگ: خیالوں کا سفر جو حقیقت بنا!


فواد احمد نے اپنے بلاگ میں کامیاب 'دورہ پاکستان' کی تفصیل بیان کی ہے۔ اہلِ خانہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں پاکستان کے سیاحتی مقامات کی سیر سے لطف کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو اس تحریر میں مل جائے گا۔

کراچی سے لاہور، اسلام آباد اور پھر نتھیا گلی تک کے سفر کے بارے میں لکھاری بلاگ کے ابتدائی حصے میں بتا دیتے ہیں کہ، 'آپ اگر ایسے ہی کسی سفر پر جانا چاہتے ہیں تو شاید کچھ رہنمائی مل سکے ورنہ امید ہے کہ کم از کم ہمارے سفر کی کہانی آپ کو بور نہیں کرے گی۔ ایک چیز اور، اور وہ یہ کہ سفر پر نکلنے سے پہلے یہ طے کرلیں کہ ایک ایک لمحے کو یادگار بنانا ہے۔ یعنی یہ نہ سوچا جائے کہ نتھیا گلی پہنچ کر ہی آپ کو مزہ آئے گا، بلکہ یہ سوچ لیں کہ گھر سے نکلنے کے بعد سے ہی تفریح کا آغاز ہوچکا ہے۔'

بلاشبہ یہ بلاگ سیر و سیاحت کے شوقین افراد کے لیے ایک سفری گائیڈ ہے۔

ڈان بلاگز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔