دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک بل گیٹس نے کہا کہ انہیں امید تھی کہ کورونا کی وبا کا خاتمہ جلد ہوجائے گا مگر ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا جس کی وجہ ڈیلٹا قسم اور لوگوں کی ویکسینیشن کی مشکلات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اومیکرون قسم تشویشناک ہے مگر نئی اقسام کو شناخت کرنے، ویکسینز اور اینٹی وائرل ادویات کی تیاری کی رفتار کے باعث انہیں توقع ہے کہ 2022 میں کووڈ ایک اینڈیمک یا مقامی مرض بن کر رہ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا 'وبا کے کسی بھی مرحلے کے مقابلے میں اب دنیا وائرس کی خطرناک اقسام سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہے، ہم اب ضرورت پڑنے پر اپ ڈیٹڈ ویکسینز تیار کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں'۔
ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اومیکرون قسم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
دنیا بھر کے سائنسدان اور ادویات ساز کمپنیوں کی جانب سے اومیکرون کے بارے میں جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز نے ماہرین کو فکرمند کیا ہے۔
بل گیٹس کے مطابق اومیکرون قسم کے بارے میں کافی معلومات جیسے موجودہ ویکسینز کی اس کے خلاف افادیت یا سابقہ بیماری سے تحفظ وغیرہ جلد دستیاب ہوگی، کیونکہ محققین کی جانب سے اس بارے میں جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
بل گیٹس نے بتایا کہ ویکسینز اور اینٹی وائرلز کی بدولت مستقبل میں کووڈ 19 کے جان لیوا ہونے کی شرح میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے لکھا 'مختلف برادریوں میں کبھی کبھار لہر ابھرے گی مگر بیشتر کیسز کے لیے گھر میں علاج کے لیے نئی ادویات دستیاب ہوں گی اور باقی کیسز کو ہسپتال سنبھال لیں گے'۔
ان کا کہنا تھا 'آنے والے 2 برسوں میں مجھے توقع ہے کہ محج اسی وقت ہمیں وائرس کا خیال آئے گا جب ہم ہر سال موسم سرما میں کووڈ اور فلو ویکسینز استعمال کریں گے'۔
اس سے قبل مارچ 2022 میں سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بل گیٹس نے پیشگوئی کی تھی کہ کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ اور زندگی 2019 کی طرح معمول پر 2022 کے آخر تک آسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں تو زندگی کے معمولات رواں سال موسم خزاں تک لگ بھگ بحال ہوسکتے ہیں مگر قانون سازوں کی جانب سے عالمی سطح پر ویکسینیشن کی ناکافی کوششوں کے باعث مکمل بحال 2022 کے آخر تک ہی ممکن ہوسکے گی۔
مگر انہوں نے خبردار کیا تھا کہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر وبا کے خاتمے کے لیے ہم نے زیادہ کام نہیں کیا، ویکسینز فی الحال امیر ممالک کے پاس جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں وائرس کی زیادہ متعدی اقسام بیرون ملک پھیل سکتی ہیں اور وہاں سے پھر امریکا پہنچ سکتی ہیں۔