امریکا کو سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کی قیمت چکانا پڑے گی، چین
چین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکا انسانی حقوق سے متعلق تحفظات پربیجنگ سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کی ’قیمت ادا کرے گا‘۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کا کھلاڑیوں کو اگلے سال فروری میں شروع ہونے والےسرمائی اولمپکس گیمز میں شرکت سے روکنے کافیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن کئی مہینوں تک چین کی ایغور میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اعتراض کرتے ہوئے اسےایغور اقلیت کی ’نسل کشی‘ قرار دے چکا ہے۔
امریکی اقدام سے شدید مشتعل ہوکر چین نے جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ امریکا کو ’اپنے غلط عمل کی قیمت چکانا پڑے گی‘+۔
منگل کو چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے یومیہ پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ ’دیکھتے رہیں،جھوٹ اور افواہوں پر مبنی نظریاتی تعصب کی بنیاد پر بیجنگ سرمائی اولمپکس میں مداخلت کرنے کی امریکی کوشش صرف امریکی مذموم عزائم کو بے نقاب کرے گی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’سرمائی اولمپکس سیاسی شوز اور سیاسی جوڑ توڑ کے لیے ایک اسٹیج نہیں ہیں،امریکا ایسے اقدامات کر رہا ہے جو بیجنگ سرمائی اولمپکس میں مداخلت اور نقصان پہنچا رہے ہیں‘۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کے اس اقدام کا امریکا میں دائیں بازو کے گروپوں اور سیاست دانوں نے بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا ہے جن کا صدرجو بائیڈن پر چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بات کرنےکا دباؤ ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی نے کہا کہ چین کی جانب سے سنکیانگ میں جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے پیش نظر انتظامیہ گیمز میں کوئی سفارتی یا سرکاری نمائندگی نہیں بھیجے گی۔
ساکی نے کہا کہ سرکاری نمائندگی بھیجنا اس بات کا اشارہ دے گا کہ کھیل ’معمول کے مطابق کاروبار‘ تھے، ’اور ہم ایسا نہیں کرسکتے، ‘ امریکی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہے، ہم 100 فیصد ان کے ساتھ ہوں گے‘۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے اسے ’ہر حکومت کے لیے خالصتاً سیاسی فیصلہ قرار دیا، جس کا اوآئی سی اپنی سیاسی غیر جانبداری میں مکمل احترام کرتا ہے‘۔
آئی او سی کے ترجمان نے کہا کہ اس اعلان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اولمپک گیمز اور کھلاڑیوں کی شرکت سیاست سے بالاتر ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
روس، جس کی پیشرو ریاست یو ایس ایس آر نےافغانستان پرحملہ کیا تھا اور جس کے بعد 1980 میں امریکا نے اولمپکس گیمز کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا، اس نے بھی امریکی بائیکاٹ کےفیصلے کی مذمت کی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارا مؤقف یہ ہے کہ اولمپک کھیلوں کو سیاست سے پاک ہونا چاہیے، اور یہ بات مثبت ہے کہ اس فیصلے سےشرکا متاثر نہیں ہوئے۔
بائیڈن کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اور چین کے تعلقات بہت تلخ ہوگئے -تھے، چین کے شہر ووہان میں کووِڈ 19 وائرس کیسے پھیلا اس پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تجارتی جنگ اور گرماگرم بحث ہوئی تھی۔
بائیڈن نے بیجنگ کے ساتھ دوبارہ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ہند۔بحرالکاہل کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی تسلط اور فوجی موجودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی امریکی اتحاد کو مضبوط بنانے پرتوجہ بھی مرکوز کی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے چین پر ٹرمپ کے دور کے تجارتی محصولات کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا ہے اور ان حساس بین الاقوامی سمندری راستوں پر بحری گشت کا حکم جاری رکھا ہوا ہے جن سے متعلق بیجنگ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاہم بائیڈن پر بات چیت کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ دائیں جانب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بہت نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں، جس سے اولمپک کھیلوں کو صرف ایک سیاسی فلیش پوائنٹ بنایا جا رہا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ٹیم یو ایس اے کے ارکان، ان کے کوچز، ٹرینرز اور دیگر عملے کو اب بھی قونصلر اور سفارتی حفاظتی مدد ملے گی۔
چین کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ کم از کم 10 لاکھ اویغور اور دیگر ترک بولنے والے، جن میں زیادہ تر مسلم اقلیتیں ہیں، سنکیانگ کے کیمپوں میں قید ہیں، جہاں چین پر خواتین کی جبری نس بندی اور جبری مشقت مسلط کرنے کا بھی الزام ہے۔
امریکی سینیٹ کی طاقتور خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ باب مینینڈیز نے سفارتی بائیکاٹ کا ’سنکیانگ میں نسل کشی‘ کی ’ایک طاقتور سرزنش‘ کے طور پر خیر مقدم کیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کو ’اہم‘ قرار دیا لیکن ’ان جرائم کے ذمہ داروں کے لیے اور زندہ بچ جانے والوں کے لیے انصاف‘ پربھی زور دیا۔
سابق ٹینس اسٹار پینگ شوائی کو کمیونسٹ پارٹی کے ایک ریٹائرڈ سیاستدان کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزامات کی گرد بھی بیجنگ اولمپکس پر چھائی ہوئی ہے، تین بار کی اولمپئین کے الزامات کو سنسر کردیا گیا تھا اور تقریباً تین ہفتوں تک انہیں سنا نہیں گیا تھا۔
ٹوکیو سرمائی گیمز کے وبائی امراض سے صرف چھ ماہ بعد آنے والے سرمائی اولمپکس 4 سے 20 فروری تک کووڈ 19 کی پابندیوں کی وجہ سے ایک ’بند لوپ‘ میں منعقد ہوں گے۔
بیجنگ کی سڑکوں پر رہائشیوں نے کہا کہ وہ امریکی اقدام سے متفق نہیں ہیں۔
ایک 72 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر نے خیالات کا اظہار اور امریکی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کھیل کھیل ہے، کھیل کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ اس کے علاوہ، کیا سیاسی معیار امریکا کو طے کرنا چاہیے؟ کیا امریکا جو بھی معیار طےکرتا ہے وہ دنیا کےلیے ڈی فیکٹو اسٹینڈرڈ بن جاتا ہے؟