نقطہ نظر

مہنگے علاقوں کے سستے بازار

وہ لوگ جن کی مالی حیثیت کمزور ہے یا پھر وہ لوگ جو اونچے اور مہنگے برانڈز کو کم داموں پر خریدنا چاہتے ہیں، وہ کہاں سے خریداری کریں؟

حال ہی میں فیس بک کے ایک کلوزڈ گروپ میں نئے ٹرینڈ کا آغاز ہوا جس میں خواتین ممبران اپنی ماؤں کے عروسی جوڑے پہنے تصاویر پوسٹ کررہی تھیں۔ مائیں اکثر اپنی شادی کے جوڑے یا زیورات بطور جذباتی قدر، یا نسل در نسل سے جاری خاندانی سلسلے کو برقرار رکھنے یا پھر جوڑے کی قیمت وصولنے کے لیے اپنی بیٹیوں یا بہوؤں کو منتقل کردیتی ہیں۔

اسی طرح جب کسی گھرانے میں کسی بچے کی عمر بڑھ جانے پر بچکانہ کپڑوں اور دیگر بچکانہ سامان کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو ان کپڑوں و دیگر سامان کو گھر میں پیدا ہونے والے اگلے بچے کے لیے سنبھال کر رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ ایک تو ان چیزوں کا معیار اچھا ہوتا ہے اور دوسرا وہ نئی جیسی ہی ہوتی ہیں۔

نئی چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے پیاری (پرانی) یا سیکنڈ ہینڈ اشیا کا طویل استعمال ہمارے خطے کی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ چنانچہ لنڈا بازار کا تصور ہمارے لیے بالکل بھی اجنبی نہیں ہے۔

کچھ لوگ لنڈا بازار کا رُخ مناسب داموں پر معیاری چیزیں خریدنے کے لیے کرتے ہیں تو کچھ لوگ قوتِ خرید سے باہر ان برانڈڈ چیزوں کو خریدنے وہاں جاتے ہیں جو دیگر جگہوں پر دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔ اکثر و بیشتر یہ پرانی رینج کا بچا کچھا اسٹاک ہوتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے سستے داموں پر بیچ دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان پر اصلی پرائس ٹیگ بھی لگا ہوتا ہے۔ کپڑے، پرس، جوتے، کھلونے، پردے، برقی مصنوعات، کراکری، گلدان اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والا سامان سمیت آپ کی ہر من پسند چیز یہاں آپ کو مل جائے گی۔

مگر ایک وقت تھا جب لنڈا بازار صرف شہر کے پرانے علاقوں میں ہوتے تھے اور لنڈا کی چیز کا استعمال معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ لنڈا بازار سے خریداری کو شرمندگی کا باعث سمجھتے تھے کیونکہ اسے صرف کم سماجی و اقتصادی طبقات کے لوگوں کا بازار ہی تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم اب تو لنڈا بازار شہر کے معروف و مقبول اور آسان رساں مقامات میں کھلنا شروع ہوگئے ہیں لہٰذا اس بازار سے جڑی بدنامی کا پہلو بھی ماند پڑچکا ہے۔

لوگوں کی ضروریات پر غالب آتی مہنگائی اور معیار اور ورائٹی کی خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے کراچی کے مہنگے بازاروں کے بیچ میں متعدد لنڈا بازار کھل چکے ہیں۔ ویسے کراچی میں لائٹ ہاؤس اور امپریس مارکیٹ کے علاوہ بھی جگہ جگہ سردیوں کی آمد کے ساتھ پرانے لیکن پیارے اونی سامان، کمبلوں یا جوتوں کے ڈھیر سے لدے ٹھیلے نظر آجاتے ہیں مگر اب کلفٹن اور زم زمہ جیسے پوش علاقوں میں بھی لنڈا بازار کھل چکے ہیں۔

کلفٹن میں واقع گلف شاپنگ مال کے اندر موجود لنڈا بازار کے دکاندار احمد نے بتایا کہ 'لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگوں کی استعمال شدہ اور متروکہ چیزیں ہیں مگر یہاں ہر چیز سیکنڈ ہینڈ یا استعمال شدہ نہیں ہے۔ یہاں بیرون ملک سے آئے سرپلس اسٹاک یا اضافی اسٹاک میں شامل اشیا بھی بکتی ہیں‘۔

3 منزلوں پر پھیلا یہ بازار تقریباً 150 دکانوں پر مشتمل ہے اور یہاں ہر ماہ 30 سے 40 لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ چونکہ اس سادہ سے بازار میں معیاری غیر ملکی ساختہ کپڑے، جیکٹ، شال، جوتے، پرس، کراکری اور باورچی خانے کا سامان سستے داموں پر مل جاتا ہے اس لیے کئی لوگ نئی، مہنگئی اور ناقابلِ اعتبار معیار کی مقامی مصنوعات خریدنے کے بجائے یہاں سے خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔

گلف مال کی ایک دکان میں کپڑوں کا جائزہ لینے والی بشریٰ نامی صارف کہتی ہیں کہ '750 روپے میں کڑھی ہوئی جینز کی خریداری بڑے ہی فائدے کا سودا ہے‘۔

سردیوں میں سوئیٹرز، جیکٹس اور ہوڈیز کی مانگ میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ شہر کے دُور دراز علاقے سے آنے والی شہناز کہتی ہیں کہ 'چونکہ بچوں کو کپڑے جلد ہی چھوٹے ہوجاتے ہیں لہٰذا مہنگے کپڑوں کی خریداری پیسوں کی بربادی ہے اس لیے میں سردیوں کے کپڑے خریدنے ہمیشہ یہاں آتی ہوں‘۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ 'بچے ہر وقت کھلونوں کی ضد کر رہے ہوتے ہیں اور معیاری کھلونے آسانی سے نہیں ملتے۔ یہاں تک کہ غیر معیاری کھلونوں بھی کافی مہنگے بیچے جاتے ہیں، لہٰذا میں آئے دن استعمال شدہ کھلونوں کی خریداری کے لیے امپریس مارکیٹ کا چکر لگاتی ہوں جہاں معمولی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ مناسب قیمت میں یہ کھلونے دستیاب ہوتے ہیں۔ میں ان کھلونوں کو دھونے کے بعد بچوں کو کھیلنے کے لیے دے دیتی ہوں‘۔

برانڈڈ پرس تو جیب پر بہت ہی زیادہ بھاری پڑتے ہیں مگر آپ ان کی نقول یا لنڈا بازار میں دستیاب برانڈڈ چیزوں سے اپنی تشفی کرسکتے ہیں۔ فریحہ نامی صارف پرسوں کی قطار بنا کر ان کی تصاویر لے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میں اپنی بہن کے لیے خریداری کر رہی ہوں اور میں اسے یہ تصاویر اس لیے بھیج رہی ہوں تاکہ وہ اپنی پسند کے پرس کا انتخاب کرسکے‘۔

فریحہ کی بہن نے جس برانڈڈ پرس کو چنا ہے اس کی قیمت 4 ہزار بتائی جاتی ہے، جب فریحہ دکاندار سے قیمت کم کروانے کے لیے بحث کرتی ہیں تو انہیں پہلے سے رٹا ہوا جواب دیا جاتا ہے کہ یہ برانڈڈ چیز ہے جو آپ کو کہیں بھی 10 ہزار روپے سے کم قیمت پر نہیں ملے گی۔

ان سیکنڈ ہینڈ اشیا اور اضافی اسٹاک کی چیزوں سے بھرے ہوئے کنٹینرز امریکا، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک سے کراچی آتے ہیں۔ ریٹیلرز ان مصنوعات کو کراچی کے علاقے شیر شاہ سے خریدتے اور لنڈا بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔

باورچی خانے میں استعمال ہونے والا برانڈڈ سامان مثلاً فرائنگ پین، فوڈ پراسسرز وغیرہ اگر بہتر حالت اور پیکنگ میں ہے تو ان کی خریداری میں کوئی حرج نہیں اور ان ورائٹی کی بھی کوئی کمی نہیں۔

جس چیز کی قیمت دیگر بازاروں میں 10 ہزار ہے وہ یہاں 3 سے 4 ہزار روپے میں خریدی جاسکتی ہے۔ گلف شاپنگ مال کے لنڈا بازار میں اعجاز نامی دکاندار نے بتایا کہ ’یہاں چیزوں کے سستے ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان کی درآمدات پر زیادہ لاگت نہیں آتی‘۔

خریداری کے لیے آنے والی یاسمین نامی خاتونِ خانہ بتاتی ہیں کہ 'میں یہاں تواتر سے آتی ہوں۔ میں نے یہاں سے مناسب قیمت پر لیکن بغیر کسی گارنٹی یا وارنٹی کے فوڈ پراسسر خریدا ہے‘۔

کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو صرف یہ دیکھنے بازاروں کا رخ کرتے ہیں کہ کون سی نئی چیز مارکیٹ میں آئی ہے اور اگر کوئی چیز انہیں پسند آجائے تو خرید بھی لیتے ہیں۔

زم زمہ مال کے لنڈا بازار میں اکثر آنے والی فرح کہتی ہیں کہ 'میں بوریت دُور کرنے کے لیے یہاں چلی آتی ہوں۔ میں چیزوں کو دیکھتی ہوں اور اگر کوئی چیز مجھے بھا جائے تو اسے خرید لیتی ہوں‘۔ فرح ماضی میں یہاں سے کاسمیٹکس کی چیزیں، برقی آلات اور آرائشی سامان خرید چکی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ 'گزرتے وقت کے ساتھ دکانداروں کا رویہ بھی بدلتا جا رہا ہے۔ پہلے یہاں دکاندار کافی ناشائستہ لب و لہجے کا استعمال کرتے تھے مگر اب یہ دکاندار اپنے صارفین سے کافی شائستگی سے بات کرتے ہیں کیونکہ شاید انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ پوش علاقوں میں صارف مختلف ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایئر فریشنر کا بھی زیادہ استعمال شروع کردیا ہے تاکہ چیزوں سے مہک آئے‘۔

مہناز نامی آرٹ کی طالبہ نے اسی جگہ سے اپنے لیے چند آرائشی چیزیں خریدی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'ان چیزوں کو یہاں دستیاب پاکر مجھے کافی حیرت ہوئی کیونکہ عام طور پر آپ کو یہ صرف بیرون ملک کی خصوصی مارکیٹوں میں ہی دستیاب ملیں گی‘۔

فہیم نامی ایک اور صارف شمالی علاقہ جات کے سفر پر جانے سے پہلے مضبوط جوتوں کی تلاش میں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'میرے پاؤں کا سائز کافی بڑا ہے اور دیگر مقامی بازاروں میں میرے سائز کا جوتا نہیں مل سکا اس لیے یہاں تلاش کر رہا ہوں‘۔ فہیم نے 6 ماہ قبل یہاں سے جوتے خریدے تھے اور کچھ عرصہ بعد انہیں ان جوتوں کے سول کی مرمت کروانی پڑگئی تھی۔ 'مگر وہ جوتے اپنی قیمت پر پورا اترے‘، انہوں نے بتایا۔

جیسے جیسے لنڈا بازاروں میں لوگوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے خریداروں میں بھی یہ بازار مقبولیت پاتے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کی مالی حیثیت کمزور ہے یا پھر وہ لوگ جو اونچے اور مہنگے برانڈز کو کم داموں پر خریدنا چاہتے ہیں ان سب کو اپنے مطلب کی کوئی نہ کوئی چیز یہاں باآسانی مل جائے گی۔


یہ مضمون 5 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار، ای او ایس میں شائع ہوا۔

رضوانہ نقوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔