سیالکوٹ واقعہ، وزیراعظم کی سربراہی میں سول-عسکری قیادت کا سیکیورٹی پر اجلاس
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سول اور عسکری قیادت کے اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی کا جائزہ لیا گیا جہاں سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کے بہیمانہ قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف، وزیراطلاعات فواد چوہدری، وزیرداخلہ شیخ رشید احمد، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور دیگر سول اور عسکری عہدیداروں نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل، پاکستان کیلئے شرم ناک دن ہے، وزیراعظم
بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں سیالکوٹ واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کےعزم کا اظہار کیا۔
وزیراعظم کے دفتر کے مطابق سیکیورٹی اجلاس کے شرکا کا خیال تھا کہ ہجوم اور کسی کو انفرادی طور پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں مقامی فیکٹری میں منیجر کی حیثیت سے کام کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو فیکٹری کے عملے نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بعد آگ لگادی تھی۔
بدترین واقعے کے بعد مذکورہ فیکٹری راجکو میں کام کرنے والے 900 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی اور 100 سے زائد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں سول اور عسکری قیادت نے سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ایک واضح حکمت عملی پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچاجاسکے اور تمام ملوث افراد کو سزا یقینی بنائی جائے۔
بیان میں کہاگیا کہ شرکا نے بدترین واقعے میں کمارا کے ساتھی ملک عدنان کے جرات مندانہ اقدام کو سراہا گیا، جنہوں نے مشتعل ہجوم کے درمیان خود کو مشکل میں ڈال کر اپنے ساتھی کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
مزید پڑھیں: سری لنکا کے صدر سے سیالکوٹ واقعے پر قوم کے غم وندامت کا اظہار کیا، وزیراعظم
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘ملک عدنان نے پریانتھا کمارا کو بچانے کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی’ اور شرکا نے مقتول کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔
سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔
سیالکوٹ پولیس کے سربراہ ارمغان گوندل نے غیرملکی خبر ایجنسی ’اے پی‘ کو بتایا تھا کہ فیکٹری کے ملازمین نے مقتول پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پوسٹر کی بے حرمتی کی جس پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا نام درج تھا۔
سیالکوٹ واقعے کے بعدٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ‘سیالکوٹ میں فیکٹری پر وحشت ناک حملہ اور سری لنکن منیجر کو زندہ جلانا پاکستان کے لیے ایک شرم ناک دن ہے’۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں تفتیش کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دلانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی، گرفتاریاں ہو رہی ہیں’۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس سے قبل وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ ہمیں اپنے قوانین کا دوبارہ جائزہ لینا ہے اور دیکھنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
یہ بھی پڑھیں: 'سخت ایکشن لینے کا وقت آگیا، حکومت کی توجہ قوانین کے نفاذ پر ہے'
ان کا کہنا تھا کہ قوانین موجود تھے اور متعدد قوانین ہماری حکومت سے پہلے کے تھے لیکن گزشتہ حکومتوں میں ان پر عمل نہیں ہوا، ہماری حکومت کی توجہ قوانین پر عمل درآمد پر ہے، جن قوانین میں کوئی خلا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سیالکوٹ واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کس طرح ہجوم نے تشدد کیا اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے کہاں تھے اور وقت پر کیوں نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ چیزیں سامنے آرہی ہیں کہ ہجوم نے کیوں اور کس طرح تشدد کیا، لوگوں کی نشاندہی ہوگئی، گرفتار ہوگئے ہیں جن میں سے کچھ آج عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور امید ہے کہ عدالتیں بھی اس سلسلے میں سختی سے قانون کو لاگو کریں گی۔