سر کھجانے پر مجبور کردینے والی یہ بہترین فلم دیکھی ہے؟
جادو کا ہر بہترین کرتب 3 مراحل پر مشتمل ہوگا۔
پہلا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب جادوگر کچھ عام ظاہر کرتا ہے مگر وہ عام ہوتا نہیں، دوسرے مرحلے میں جادوگر اس عام کام کو غیرمعمولی بنادیتا ہے۔
اور تیسرا مرحلہ اس کرتب کا راز ہوتا ہے جو آپ دریافت نہیں کرپاتے اور اسے ہی تھرڈ ایکٹ کہا جاتا ہے۔
ہولی وڈ کے معروف ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کی وہ بہترین فلم جو ذہن گھما دینے والے نشیب و فراز سے بھرپور ہے مگر بیشتر افراد کو اس کا علم نہیں۔
دی پریسٹیج نامی اس فلم میں زندگیاں خطرے میں ہوتی ہیں اور دیکھنے والے کو ایسا چونکا دینے والا دیکھنے کو ملتا ہے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔
دو جادوگروں کی ایک دوسرے سے رقابت اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مخالف سے زیادہ بہتر جادوئی کرتب تیار کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور ایسا بصری دھوکا دینا چاہتے ہیں جو لوگوں کو دنگ کردے۔
پلاٹ
جادو کے پرجوش طالبعلم الفریڈ بورڈم (کرسٹین بیل) اور رابرٹ اینیگر (ہیوگ جیک مین) وکٹورین عہد کے برطانیہ کے ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو لوگوں کی نظروں کو دھوکا دے کر شہرت کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں۔
وہ تفریح اور لوگوں کو کچھ نیا دکھانے کے لیے ہر حد کو عبور کرنا چاہتے ہیں اور دونوں کا اپنا انداز ہے، الفریڈ بورڈم خطرے مول لینے والا ہے اور ناممکن کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے سے نہیں ڈرتا۔
اس کے مقابلے میں رابرٹ اینیگر ایل شومین ہے جو محفوظ رہتے ہوئے آگے ترجیح دیتا ہے۔
ان دونوں کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا مگر جب ایک کرتب غلط ہوتا ہے تو یہ دونوں پیشہ ور حریف سے بڑھ کر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ہر شعبے میں پیچھے چھوڑے کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
دونوں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک الفریڈ پر رابرٹ کے قتل کا الزام نہیں لگ جاتا۔
اور ظاہر ہے وہ قتل بھی نظروں کا دھوکا ہی ہوتا ہے مگر زیادہ تفصیل سے فلم دیکھنے کا پورا مزہ ختم ہوجائے گا۔
چند دیگر حقائق
یہ فلم 1995 کے اسی نام سے تحریر کیے گئے ایک پیچیدہ ناول پر مبنی تھی جسے کرسٹوفر پریسٹ نے تحریر کیا تھا۔
کرسٹوفر نولان نے اس کا اسکرپٹ تحریر کیا اور کہانی میں کچھ تبدیلیاں کیں اور یہی وجہ ہے کہ ناظرین کو کہانی کے اندر کہانی اور ایک اور کہانی الجھا کر رکھ دیتی ہے۔
اس کہانی کو اسکرپٹ کی شکل دینے میں 5 سال کا عرصہ لگا کیونکہ اس دوران کرسٹوفر نولان کو دیگر فلموں پر بھی کام کرنا تھا اور کام کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے اپنے بھائی جوناتھن نولان کی خدمات حاصل کیں۔
دی پریسٹیج کی ریلیز میں تاخیر کی ایک وجہ اسی اسٹوڈیو کے لیے کرسٹوفر نولان کی جانب سے بیٹ مین بیگن کی ہدایات دینا بھی تھا۔
فلم کی ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ ویسے تو یہ جادوگروں کے گرد گھومتی ہے مگر اس میں اصل جادوگر رکی جے ہی تھے ، جنہوں نے فلم کے جادو کے مشیر کے طور پر بھی کام کرتے ہوئے مرکزی کرداروں کو مختلف تیکنیکس سیکھائیں۔
جیسا اوپر درج کیا گیا ہے کہ جادو کے کرتب کے 3 مراحل ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کی آنکھوں کو دھوکا دیا جاسکے اور کرسٹوفر نولان نے اس کا اسکرپٹ ان تینوں مراحل کی عکاسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر کیا۔
یہی وجہ ہے کہ فلم کا اختتام دیکھنے والوں کو سر کھجانے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ کئی بار اسے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
فلم میں کرسٹوفر نولان کا کمال یہی تھا کہ وہ دیکھنے والوں کو بار بار مختلف کرداروں سے ہمدردی اور پھر نفرت پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی توقعات کے برعکس انداز سے اختتام کرتے ہیں۔
اس فلم کی ریلیز کو 15 سال ہوچکے ہیں یعنی 2006 میں اسے ریلیز کی گیا تھا مگر اب بھی اسے دوبارہ دیکھتے ہوئے یہی احساس ہوتا ہے کہ اسے پہلی بار دیکھا جارہا ہے۔
2006 کی یہ فلم ایک ایسی کہانی ہے جو حقیقت اور اسٹیج کرافٹ کے درمیان موجود لکیر کے حوالے سے سوالات ذہن میں پیدا کرتی ہے، جس کی تلاش میں اسے دیکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔