صحت

ایسٹرازینیکا ویکسین سے چند افراد میں بلڈکلاٹ کے خطرے کی وجہ دریافت

ویکسین کے اس مضر اثر کا سامنا بہت کم افراد کو ہوتا ہے اور اب طبی ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ جان لی ہے۔

2021 کے شروع میں طبی ماہرین نے ایسٹرا زینیکا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین اور بلڈ کلاٹ کے درمیان تعلق کو دریافت کیا تھا۔

ویکسین کے اس مضر اثر کا سامنا بہت کم افراد کو ہوتا ہے اور اب طبی ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ جان لی ہے۔

امریکا اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے ایسٹرا زینیکا ویکسین سے بلڈ کلاٹ بننے کی ممکنہ وجہ کو شناخت کیا۔

اس تحقیقی ٹیم میں ایسٹرا زینیکا کے ماہرین بھی شامل تھے اور اس میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین اور ایک پلیٹلیٹ فیکٹر 4 (پی ایف 4) نامی پروٹین کے درمیان تعلق چند افراد میں بلڈ کلاٹ کا باعث ہوتا ہے۔

مگر کمپنی نے یہ بھی کہا کہ تحقیق کے نتائج حتمی نہیں۔

اپریل میں ایسٹرا زینیکا ویکسین کے استعمال سے چند افراد میں بلڈ کلاٹس کے کیسز سامنے آنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے استعمال کو مخصوص گروپس تک محدود کردیا گیا تھا۔

مئی 2021 میں جرمن سائنسدانوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ یہ مضر اثر ویکسین کی تیار کے لیے استعمال ہونے والے ایڈنو وائرس سے منسلک ہے۔

ماہرین کے مطابق بلڈ کلاٹس کی شرح دوسری کے مقابلے میں پہلی خوراک کے استعمال کے بعد زیادہ عام تھی اور صرف برطانیہ میں ایسے 426 کیسز رپورٹ ہوئے، جہاں 2 کروڑ 40 لاکھ سے زائد خوراکیں استعمال کی جاچکی ہیں۔

کمپنی نے اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ نتائج حتمی نہیں، مگر اس سے اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں اور ایسٹرا زینیکا کی جانب سے اس کی بنیاد پر اس مضر اثر کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں گی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین میں ایڈنو وائرس کو جس طرح کورونا وائرس کے جینیاتی مواد کو اس مخصوص پروٹین کے ذریعے جکڑا جاتا ہے، وہ طریقہ کار ممکنہ طور پر کچھ افراد میں بلڈ کلاٹس کا باعث بنتا ہے۔

محققین کے خیال میں اس سے مدافعتی نظام میں ایک چین ری ایکشن متحرک ہوتا ہے جو بلڈ کلاٹس کا باعث بنتا ہے۔

تحقیق میں شامل کارڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے ماہر پروفیسر ایلن پارکر نے بتایا کہ ویکسین کا یہ مضؑ اثر نہ ہونے کے برابر افراد میں نظر آتا ہے کیونکہ اس کے لیے ایک پیچیدہ میکنزم کو متحرک ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ڈیٹا سے تصدیق ہوتی ہے کہ پی ایف 4 ایڈنو وائرسز کو جکڑ سکتا ہے جو بلڈ کلاٹس کے پیچھے چھپے میکنزم کے انکشاف کی جانب اہم پیشرفت ہے، جس سے ایسے میکنزم کو تشکیل دیا جاسکے گا جو اس مسئلے کی روک تھام کرسکے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوئے۔

خیال رہے کہ ویکسینیشن کے مقابلے میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس کے مطابق پلیٹلیٹس اور خون کی شریانوں میں موجود خلیات کے درمیان تعلق میں آنے والی تبدیلیاں کووڈ 19 کے مریضوں میں اعضا کو جان لیوا نقصان پہنچانے کی ایک اہم وجہ ہے۔

نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ پلیٹلیٹس سے خارج ہونے والے پروٹین سگنلز کووڈ کے مریضوں میں ورم، غیر معمولی بلڈ کلاٹنگ کا خون جمنے اور شریانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

تحقیق میں 2 جینز ایس 1000 اے 8 اور ایس 1000 اے 9 کو شناخت کیا گیا جو کووڈ 19 کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایم آر پی 8 اور 14 نامی پروٹینز زیادہ بننے لگتے ہیں۔

یہ دونوں خلیات اکٹھے کام کرتے ہیں اور زیادہ تر مدافعتی خلیات میں پائے جاتے ہیں، ان پروٹینز کی تعداد میں اضافے کو تحقیق میں شریانوں میں بلڈ کلاٹس اور ورم، بیماری کی سنگین شدت اور ہسپتال میں طویل قیام سے منسلک کیا گیا۔

پلیٹلیٹس سے کووڈ 19 کے مریضوں کی خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کے خیال کو سپورٹ کرنے کے ساتھ محققین نے یہ شواہد بھی پیش کیے کہ اس وقت پلیٹلیٹس کو متحرک ہونے سے بلاک کرنے والی ادویات شریانوں میں کووڈ سے جڑے ورم کی شرح کو کم کرسکتی ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر پلیٹلیٹس سے خون کی شریانوں میں موجود خلیات میں آنے والی تبدیلیاں زیادہ تر ایک پروٹین پی سلیکٹین کا نتیجہ ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں پلیٹلیٹس زیادہ چپکنے لگتے ہیں اور کلاٹس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے کووڈ 19 سے خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے پلیٹلیٹس کے کردار کا انکشاف ہوتا ہے اور ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس فلو کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا کیوں ہے۔

اس سے قبل جولائی میں طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیرضروری پلیٹلیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں۔

جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹلیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

کیا اومیکرون کورونا کی بہت زیادہ متعدی قسم ہے؟

کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ زیادہ ہونے کا انکشاف

کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں کے بارے میں نیا انکشاف