نقطہ نظر

کورونا وائرس: ہمارے معمولات میں آنے والی تبدیلی ہی اب ہمارا معمول ہوگا

اس عالمی وبا کے دوران زندگی گزارنا ہمارے ماضی کے تجربات سے بہت مختلف ہے۔ اب زندہ رہنے کے لیے پہلے سے زیادہ احتیاط اور صبر چاہیے۔

گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی نئی قسم B.1.1.529 یا ’اومیکرون‘ کو ’قابلِ تشویش‘ قسم قرار دیا تھا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جسے یقیناً ہم اب سننا نہیں چاہتے تھے۔

کورونا کی یہ قسم پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی تھی۔ اس کے سامنے آتے ہی اکثر یورپی ممالک اور متحدہ عرب امارات نے جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کئی دیگر افریقی ممالک کے خلاف سفری پابندیاں عائد کردیں۔

اس خبر سے ہوائی اڈوں پر ایک افراتفری سی مچ گئی۔ ایمسٹرڈیم کے اسکیپول ایئرپورٹ کے عملے کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ سے آنے والی پروازوں سے کس طرح نمٹیں۔ ان پروازوں کے اڑان بھرتے وقت سفری پابندیاں موجود نہیں تھیں تاہم دورانِ پرواز ہی نیدرلینڈ کی جانب سے سفری پابندیوں کا اعلان ہوگیا تھا۔

اس زمین کے باسی اب ایک اور موسمِ سرما وبا اور اس کی وجہ سے عائد پابندیوں میں گزارنا نہیں چاہتے۔ مغربی دنیا اور افریقہ میں بھی لوگ اپنے ان عزیز و اقارب کے ساتھ چھٹیاں گزارنا چاہتے ہیں جن سے وہ وبا کے باعث گزشتہ سال سے مل نہیں سکے۔

مزید پڑھیے: کورونا ویکسین اور سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں انسانیت کی توہین

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی ویکسین کے آنے کے بعد لوگ پہلے بھرپور ’شادی سیزن‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ تاہم یہ ویکسین اور بوسٹر ویکسین بھی شاید اومیکرون کے خلاف مؤثر نہ ہو۔

سائنسدان اس وائرس سے نمٹنے کے راستے تلاش کررہے ہیں تاہم ابتدائی معلومات کے مطابق کورونا کی یہ قسم اصل وائرس سے بہت زیادہ مختلف ہے اور ممکن ہے کہ موجودہ ویکسینز اور بوسٹر اس وائرس کے سامنے کم مؤثر یا غیر مؤثر ہوں۔ اس سے بیماری کی شدت پر کیا اثرات پڑیں گے اس بارے میں بھی کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ اس وائرس کے ساتھ اپنے پرانے تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس نئی قسم سے جوانوں کی نسبت بوڑھے یا کمزور مدافعتی نظام والے افراد زیادہ متاثر ہوں گے؟

شادی کرنے یا شادیوں میں شرکت کے متمنی افراد کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ موسمِ سرما کا ’شادی سیزن‘ شروع ہوچکا ہے اور ابتدائی تقاریب کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ ہورہا ہے کہ شادی کی اُن بڑی، مہنگی اور پُرہجوم تقریبات کا دور واپس آگیا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہر کوئی اس سیزن کو معمول کی جانب واپسی کا مرحلہ سمجھ رہا ہے خاص طور سے وہ لوگ جو محدود تقریبات سے مطمئن نہیں تھے۔

تاہم اومیکرون کے آنے سے قبل بھی یہ خیال صرف ایک دھوکا ہی تھا۔ کورونا کے کیس کم ضرور ہوچکے ہیں لیکن ابھی بھی موجود ہیں۔ لوگ اب بھی اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے باہر گھوم پھر رہے ہیں جس کی وجہ سے کورونا کے مریضوں میں اضافے کے امکان موجود ہے۔ کورونا کے آغاز سے ہی ہم دیکھتے آئے ہیں کہ نوجوان افراد بزرگوں یا کمزور مدافعتی نظام رکھنے والوں کو وائرس منتقل کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس موسمِ سرما میں بھی اس بات کا امکان موجود ہے۔

مزید پڑھیے: سفری پابندیاں عارضی نہیں، دنیا کو مستقبل میں کونسے بڑے خطرے لاحق ہیں؟

یہاں عادلانہ طرزِ عمل کے بھی کچھ مسائل ہیں اور پھر سفری پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ کئی ماہرین کورونا کی نئی اقسام سے نمٹنے کے لیے سفری پابندیوں کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا کی یہ نئی قسم اسرائیل اور بیلجیئم جیسے ممالک میں بھی سامنے آئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وائرس کچھ وقت سے وہاں موجود تھا۔ جنوبی افریقی شہریوں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ان ممالک پر سفری پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں اور ان ممالک کے شہری بغیر کسی پابندی کے دنیا بھر میں گھوم پھر رہے ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مغربی شہری پابندی ہونے کے باوجود کسی بھی ملک سے اپنے ملک واپس جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نیویارک ٹائمز کی رپورٹر اسٹیفنی نولن کی ہے۔ اسٹیفنی جنوبی افریقہ اور اس کے پڑوسی ممالک میں اومیکرون کے سامنے آنے پر رپورٹنگ کر رہی تھیں۔

گزشتہ ہفتے اسٹیفنی جوہانسبرگ سے ایمسٹرڈیم کے سفر کے لیے کے ایل ایم ایئرلائن کی پرواز پر سوار ہوئیں۔ وہ کینیڈا میں رہتی ہیں اور انہیں ایمسٹرڈیم سے کینیڈا کے لیے دوسری پرواز میں سوار ہونا تھا۔ جس وقت ان کی پرواز ایمسٹرڈیم کے اسکیپول ایئرپورٹ پر اتری تب تک ڈچ حکام جنوبی افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کرچکے تھے۔ ایئرپورٹ عملے کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ ان جہازوں میں موجود سیکڑوں افراد کے ساتھ کیا کریں۔ بلآخر انہوں نے اسٹیفنی اور دیگر مسافروں کو ایک گودام جیسے کمرے میں جمع کیا (وہ سب ایک ساتھ تھے اور بغیر ماسک کے تھے) اور ڈچ حکام نے ان کا کورونا کا ٹیسٹ کیا۔

اگرچہ اسٹیفنی تو وائرس سے محفوظ تھیں تاہم تقریباً 30 لوگوں کا کورونا مثبت آیا، یہ وہ لوگ تھے جن میں پرواز سے قبل ہونے والے ٹیسٹ میں کورونا کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ جن لوگوں کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا ڈچ حکام انہیں بھی اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ یوں اسٹیفنی بھی کینیڈا کے لیے پرواز میں سوار ہوگئیں جبکہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ چند گھنٹے گزار چکی تھیں جو کورونا سے متاثر تھے۔

غور کیجیے کہ اب کینیڈا جانے والی پرواز میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اس طیارے میں کوئی ایسا مسافر بھی موجود ہے جو حال ہی میں جنوبی افریقہ میں رہا ہے اور ممکنہ طور پر ایسے لوگوں سے بھی ملا ہوگا جو کورونا کی اومیکرون قسم کا شکار تھے۔ بیرونِ ملک سفر کرنے میں آج کل اس قسم کے خطرات موجود ہیں۔

مزید پڑھیے: ’مستقبل ورک فرام ہوم کا ہی ہے‘

اگرچہ اومیکرون کے خلاف ویکسین کے اثرات کا ابھی جائزہ لیا جارہا ہے لیکن اس سے قطع نظر حکومتِ پاکستان کو ملک بھر میں ویکسینشن اور بوسٹر ویکسین لگانے کا عمل تیز تر کرنا چاہیے۔ وبا کے پھیلاؤ اور لاک ڈاؤن سے بچنے کے لیے 50 سے زائد افراد کی تقریبات پر پابندی ہونی چاہیے اور اس کا اطلاق خاص طور پر موسمِ سرما میں ہونے والی بڑی تقریبات پر ہونا چاہیے۔

امیر ممالک کے برخلاف پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ درکار ضرورت کے مطابق تیزی سے بوسٹر ویکسین فراہم کرسکے۔ اس کا مطلب ہے کہ بڑی تقاریب پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ دھونے اور ماسک لگانے پر سختی سے عمل کرنا ہوگا تاکہ ملک کو کورونا کی نئی قسم کے شدید اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔

ہمیں معلوم ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران زندگی گزارنا ہمارے یا دنیا کے ماضی کے تجربات کی نسبت بہت مختلف ہے۔ اب زندہ رہنے کے لیے پہلے سے زیادہ احتیاط اور صبر کی ضرورت ہے اور ہمارے معمولات میں آنے والی تبدیلی عارضی نہیں ہے بلکہ اب یہی ہمارا معمول ہوگا۔


یہ مضمون یکم دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔