کووڈ سے متاثر ہونے والی خواتین کے بچوں کا دماغ بیماری سے متاثر نہیں ہوتا، تحقیق
کووڈ 19 کی معمولی یا معتدل شدت کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں اس بیماری سے بچے کے دماغ کی نشوونما پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کووڈ کی وبا کو اب 2 سال ہوگئے ہیں مگر اب بھی حاملہ خواتین کے پیٹ میں موجود بچوں پر اس کے اثرات کے حوالے سے بہت کم تفصیلات سامنے آسکی ہیں۔
لیوجوگ میکسیمیلن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ حمل کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والی خواتین میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ اس بیماری سے ان کے بچے کی نشوونما متاثر ہوسکتی ہے جیسا چند دیگر وائرل انفیکشنز میں ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اب تک ماں سے بچے میں وائرس کی منتقلی کے چند کیسز ہی رپورٹ ہوئے ہیں تو حقیقی خطرے اور اثرات کے بارے میں بہت کچھ واضح نہیں، ہماری تحقیق کا مقصد اس خلا کو بھرنا تھا۔
اس مقصد کے لیے حمل کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والی 33 خواتین کے بچوں کے ایم آر آئی ٹیسٹ کیے گئے۔
ان خواتین کے حمل کو اوسطاً 28 ہفتے ہوچکے تھے اور ان میں سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی یا صلاحیت کم ہونا، خشک کھانسی، بخار اور سانس لینے میں مشکلات عام تھیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کے دماغ پر اس بیماری سے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق میں ہم نے ایسے کوئی شواہد دریافت نہیں کیے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ماں کی بیماری بچے کی دماغی نشوونما پر کسی قسم کے اثرات مرتب کرتی ہے، جس سے متاثرہ خواتین کو ریلیف مھسوس ہوگا۔
مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تحقیق معمولی سے معتدل شدت کی بیماری کا سامنا کرنے والی خواتین میں ہوئی اور زیادہ بیمار ہونے والی خواتین کے بچوں پر اثرات کی جانچ پڑتال ابھی نہیں ہوئی، تو اس مرحلے پر ٹھوس الفاظ میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ویکسینیشن ہی کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے سب سے بہترین ہے، معمولی مضر اثرات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم حاملہ خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ویکسینیشن کرالیں۔
اب یہ ماہرین ان خواتین کی مانیٹرنگ آئندہ 5 سال تک جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جبکہ بچوں کی صحت اور دماغی نشوونما کی بھی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ریڈیولوجیکل سوسائٹی آف نارتھ امریکا کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے گئے۔