وہ مسجد والا اسکول
کراچی شہر کی معتدل شاموں میں ادھیڑ عمر عظمیٰ اور ان کی بیٹی کے لیے روز مرہ کا معمول اب تبدیل ہوگیا ہے۔
وہ اپنے گھریلو کاموں سے فارغ ہوکر گھر سے نکلتی ہیں اور مارٹن کوارٹر کی تنگ گلیوں میں گندے پانی کے گڑھوں سے بچ بچا کر چلتی ہیں تاکہ ان کا برقع گندا نہ ہوجائے۔ راستے میں وہ کچھ ہنسی مذاق بھی کرلیتی ہیں لیکن وہ اس حوالے سے محتاط رہتی ہیں کہ وہ زیادہ مردوں کی توجہ کا مرکز نہ بنیں۔ وہ اپنے گھر سے کچھ ہی دور واقع بغدادی مسجد پہنچ جاتی ہیں جہاں وہ ہفتہ وار بنیاد پر ابتدائی درجے کی انگریزی کی کلاسیں لیتی ہیں۔
اس کلاس میں وہ اکیلی نہیں ہیں۔ پہلی سے 10ویں جماعت کی سطح کے تقریباً 1200 طلبہ اس کورس میں شامل ہیں۔ یہاں کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جو کمپیوٹر اور اس کے علاوہ فارسی، ترک اور عربی زبان بھی سیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام کورسز بالکل مفت اور بہترین اساتذہ کی زیر نگرانی کروائے جارہے ہیں۔
اس فلاحی منصوبے کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی ماہ گزرے ہیں۔ اس علاقے کی سماجی حرکیات سے آگاہ ایک مبصر کے مطابق ان کورسز میں شامل طلبہ کا تحرک، ماضی میں سیاسی اور فرقہ وارانہ تناؤ کا شکار رہنے والے اس علاقے کے ماحول کو تبدیل کررہا ہے۔
دراصل اس کا آغاز تقسیم ہند کے بعد ہی ہوگیا تھا جب ایک مذہبی اسکالر علامہ ریاض سہروردی مرحوم اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے کراچی کے اس مہاجر اکثریتی علاقے کے وسط میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں توسیع کرکے مدرسہ بھی قائم کرلیا۔
اب 70 سال بعد ان کے پوتے نجم سہروردی نے ’آف دی اسکول‘ کے نام سے اس فلاحی منصوبے کو شروع کیا ہے۔
نجم ایک صحافی اور شیو ننگ اسکالر ہیں جو کہ یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ریلیجن اینڈ لا میں ماسٹرز کرکے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’یہاں طالبات کی تعداد دو تہائی ہے۔ ہم نے یہاں معمول کے تعلیمی کورسز کے ساتھ ساتھ ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ اور پروگرامنگ کی کلاسیں بھی شروع کی ہیں۔ یہ ایک طرح سے کمیونٹی لرننگ سینٹر ہے۔ ہمارا مقصد مالی مشکلات کا شکار لوگوں کو معیاری تعلیم اور سیکھنے کا ماحول فراہم کرنا ہے‘۔
پاکستان کی تقریباً ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی گزارتی ہے۔ تقریباً 2 کروڑ 26 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے اور ہماری نصف آبادی، بشمول دو تہائی خواتین کو لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا۔ 21-2020ء کے معاشی سروے سے ظاہر ہوا کہ ملک میں شرح خواندگی 60 فیصد پر برقرار ہے جبکہ سال 20-2019ء میں تعلیم سے متعلق اخراجات میں 29.6 فیصد کمی آئی ہے۔ تاہم نجم کے نزدیک یہ ’تعلیمی بحران‘ صرف ان اعداد و شمار تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ تو کہیں آگے تک جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں تعلیم اب سماجی انصاف کا معاملہ بن چکا ہے۔ آج ہم سرکاری اور نجی اداروں اور مدرسوں میں ہزاروں طلبہ تیار کررہے ہیں لیکن وہ اپنی محدود صلاحیتوں کے باعث ہمارے اقتصاد دانش (نالج اکانومی) کا حصہ نہیں ہیں۔
’ستم ظریفی دیکھیے کہ اس مسئلے سے ہر کوئی دوچار بھی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسے اسکول ہیں جن کی تعلیم کسی بھی غیر ملکی تعلیمی ادارے جتنی ہی معیاری ہے تاہم صرف ایک چھوٹا مراعت یافتہ طبقہ ہی ان تک رسائی رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اکثریت کو معیاری تعلیم کا وہی حق کیوں نہیں مل سکتا؟ آخر کیوں والدین کو ان کے بچے کی اچھی تعلیم سے صرف اس لیے محروم رکھا جائے کہ وہ ماہانہ 40 ہزار روپے اسکول فیس نہیں دے سکتے؟ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے‘۔
ہر لفظ کے ساتھ ساتھ نجم کی آواز میں بھی تیزی آرہی تھی کہ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ نجمہ تھی جو اپنی بیٹی کو کمرہ جماعت میں چھوڑ کر ممکنہ طور پر اگلے ماہ شروع ہونے والے کورس کے بارے میں معلومات لینے آئی تھیں۔ وہ کورس صرف لڑکیوں کے لیے تھا۔ رسمی علیک سلیک اور کچھ دیر میں ان سے ملنے کے وعدے کے بعد نجم نے ان سے تھوڑی دیر انتظار گاہ میں بیٹھنے کی درخواست کی۔ وہ اس پر راضی تو نہیں تھیں لیکن انہوں نے رسماً یہ بات مان لی۔
مشرف زیدی تبادلیب کے سینیئر فیلو ہیں۔ تبادلیب اسلام آباد میں واقع ایک تھنک ٹینک اور مشاورتی خدمات فراہم کرنا والا ادارہ ہے جو قومی اور غیر ملکی اداروں اور سرکاری اداروں کو مشاورتی خدمات فراہم کرتا ہے۔ مشرف کے خیال میں پاکستان کے موجودہ تعلیمی بحران کو اس میں موجود تقسیم کے کئی نکات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان نکات میں طبقات، جنس اور زبان (انگریزی میں مہارت) جیسی چیزیں شامل ہیں۔
ان کے مطابق ’مڈل اسکول کی سطح پر لڑکیوں کے اسکول چھوڑ دینے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دنیا اور معاشرے میں ان معاشی ایجنٹوں کو پسند کیا جاتا ہے جو انگریزی میں مہارت رکھتے ہوں اور یہ مہارت نہ ہونا معاشی اور سماجی ترقی میں ایک رکاوٹ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے تمام طبقات خاص طور پر مذہبی طبقے کو مرکزی دھارے میں لانے کی فوری ضرورت ہے‘۔
نجم اپنے خاندان کی وجہ سے خود بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے مدرسے کے طلبہ کے لیے خصوصی کورس شروع کیے ہیں تاکہ انہیں نوکریوں کے موجودہ مواقعوں کے لیے تیار کیا جائے۔ معمول کے اسکول کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی مختصر پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں جن میں طلبہ کو بورڈ کے امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک گرومنگ پروگرام بھی ہے جو کہ طلبہ کی شخصیت سازی کرتا ہے۔ یہاں طلبہ کو ڈیجیٹل مہارت فراہم کرنے کے لیے مختلف زبانوں اور کمپیوٹر کے کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔
محمد عمر ایک انگریزی روزنامے کے سٹی ایڈیٹر ہیں اور ابتدائی درجے کی انگریزی سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ منصوبہ والدین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ اس موقع کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اب وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم فراہم کرسکتے ہیں جو پہلے ان کی دسترس سے باہر تھی‘۔
لیکن یہاں وہی سوال موجود ہے کہ کیا یہ منصوبہ برقرار رہ سکتا ہے؟ نجم کے مطابق تو ایسا ہوسکتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یہاں جو اساتذہ موجود ہیں وہ درکار تعلیمی نتائج کی فراہمی ممکن بناسکتے ہیں اور یہ کہ ان کا منصوبہ دیگر مدارس کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔ وہ اسے ’اشرافیہ کی گرفت میں موجود ریاست‘ کو چیلنج کرنا پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔
نجم کے مطابق ’ہم اشرافیہ کی اس گرفت کا ذمہ دار تو مدارس کو نہیں ٹھہرا سکتے تاہم مدارس کو دستیاب جگہوں اور عوام پر ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے مدارس اس نظام کو چیلنج کرنے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو بااختیار بنانے کے بجائے ہمارا مذہبی طبقہ صرف مذہبی شخصیات تیار کرنے اور مساجد کے اندر فوٹو شوٹ جیسی معمولی چیزوں پر غصے کا اظہار کررہا ہے۔
’ہم اظہار آزادی کے کسی انفرادی فعل پر تو خوب لعن تعن کرتے ہیں لیکن مجموعی سماجی ناانصافیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں‘۔
اچانک عظمیٰ نے فکرمند چہرے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا کہ ’سر! 10 منٹ بعد میری کلاس ہے۔ کیا ہم ابھی بات کرسکتے ہیں؟‘
ان کی عجلت کا احساس کرتے ہوئے نجم ہم سے معذرت کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے۔ ان کا رائٹنگ پیڈ میز پر ہی موجود تھا۔ میں نے اس پر نظر ڈالی تو ایک صفحے کے کنارے پر بڑے حروف میں تحریر تھا کہ ’ہم یقین کرنے کے لیے نہیں بلکہ سوال کرنے کے لیے سیکھتے ہیں‘۔
یہ مضمون 28 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
عباد احمد رائل ہالووے یونیورسٹی آف لندن سے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے گریجویٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر ebadahmed@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔