سندھ حکومت کو غیرقانونی تعمیرات ریگولرائز کرنے کی اجازت ملنی چاہیے، سعید غنی
سندھ حکومت کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کو خلاف ضابطہ بنائی گئی غیرقانونی عمارتوں کو ریگولرائز کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس سے لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔
پشاور میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نیئر بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا میں پشتونوں کا سب سے بڑا شہر کراچی نہیں پشاور ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: نسلہ ٹاور کے باہر متاثرین، بلڈرز کا احتجاج، پولیس کا لاٹھی چارج
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ماضی میں جو کچھ ہوا ہے، وہ اللہ نے کرے دنیا کے کسی شہر کے ساتھ ہو، کراچی میں گزشتہ 25 سے 30 برسوں میں جس قسم کی بربادی ہوئی ہے، باقی شہر اس سے بچے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی دنیا کا چھٹا یا ساتواں بڑا شہر ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کراچی میں مسائل نہ ہوں لیکن پچھلے 12 سے 13سالوں میں کراچی میں بہتری آئی ہے اور اب امن و امان کی صورتحال کراچی میں بہت بہتر ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ کراچی میں کوئی شخص اپنی مرضی سے اپنے سیاسی فیصلے یا سیاسی جماعتیں تبدیل نہیں کر سکتا تھا لیکن آج وہ لوگ جو خوف کے مارے ایم کیو ایم چھوڑ رہے تھے وہ پارٹیاں چھوڑ رہے تھے اور کھل کر اپنی سیاسی آزادی کا اظہار کررہے ہیں جبکہ کراچی میں ترقیاتی کام بھی بہت ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں، پچھلے سال جب گیس کا بحران تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ سندھ حکومت ہمیں گیس کی لائن نہیں ڈالنے دے رہی، ہم نے انہیں فائلیں وغیرہ ٹھیک کر کے دے دیں اور دسمبر 2020 میں ندیم بابر نے کہا کہ لائن ڈل گئی ہے اور گیس کا مسئلہ حل ہو گیا ہے لیکن آج ایک سال کے بعد ہم وہی رونا رو رہے ہیں لہٰذا ان سے پوچھا جائے کہ آج یہ بحران کیوں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کی ساری مشینری لے کر ابھی جائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں، چیف جسٹس کا حکم
انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم بحران پیدا ہوتا ہے تو ذمے دار سندھ حکومت ہے، پنجاب میں پاکستان کی 70فیصد سے زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے اور پنجاب اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے، پنجاب میں فصل اترنے کے ایک ماہ بعد وفاقی وزیر فخر زمام کہتے ہیں کہ مجھے نہیں پتہ کہ پنجاب میں 66لاکھ ٹن گندم کہاں چلی گئی۔
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ چینی کی قیمت 150 روپے سے اوپر جاتی ہے تو وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یہ قیمت کیوں بڑھ گئی ہے تو مجھے بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے تین شوگر ملوں کی کرشنگ شروع کر کے بند کرادی، ہم پوچھ پوچھ کر تھک گئے کہ وہ کونسی شوگر ملیں ہیں جن کی کرشنگ سندھ حکومت نے بند کرائی تھی، ہمیں بتائیں تاکہ ہم ان کے خلاف کارروائی کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کورونا پھیلا تو بولے کہ سندھ حکومت ذمے دار ہے، اب کھاد کا بحران آ رہا ہے، اب ان کے فنکاروں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ سندھ میں ساری ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے، وزیراعظم ہمیں بتادیں کہ کہاں کون ذخیرہ اندوزہ کررہا ہے تاکہ ہم اس کے خلاف کارروائی کریں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال پیٹرول کئی دن تک پمپس پر نہیں مل رہا تھا اور اچانک ایک رات 25 روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا اور آدھے گھنٹے میں پورے ملک میں پیٹرول دستیاب ہو گیا، یہ بین الاقوامی جگاتریوں کی حکومت ہے، اس حکومت میں بیٹھے لوگوں کے اے ٹی ایمز ہیں جو پاکستانیوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور ایک ہفتے میں 'دھماکا خیز مواد' سے منہدم کرنے کا حکم
ان کا کہناتھا کہ گندم، چینی، بجلی، گیس، دوا، پیٹرول کی قیمت بڑھانی ہو یا ڈالر مہنگا کرنا ہو، ہر چیز کے پیچھے ان کی فنکاریاں نظر آتی ہیں اور جب ان کے کھاتے کھلیں گے تو لوگ کرپشن بھول جائیں گے، میں بار بار پوچھتا ہوں کہ عمران خان کا ذریعہ معاش یا آمدن کیا ہے، عمران خان بتائیں کہ وہ مہینے میں کہاں سے کتنے پیسے کماتے ہیں، عمران خان بتائیں وہ کتنا ٹیکس بھرتا ہے، تین سال پہلے جب ٹیکس بھرا تھا تو میرا ٹیکس بھی ان سے زیادہ تھا حالانکہ عمران خان 300کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔
نسلہ ٹاور کے حوالے سے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہونے والی تعمیرات میں کہیں نہ کہیں خلاف ورزی ہو جاتی ہے اور کئی جگہوں پر لوگ سرکاری زمین پر 50، 50سال سے قابض ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کانسٹی ٹیوشن ایونیو 1 میں دو بڑی عالیشان عمارتیں کھڑی ہوئیں، اس میں قوانین کی خلاف ورزی پر لیز کینسل ہوئی لیکن چونکہ وہاں عمران خان سمیت کئی بڑے بڑے لوگوں کے اپارٹمنٹس تھے، اس کو 18ارب جرمانہ کر کے ریگولرائز کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا اپنا گھر بنی گالا خلاف ورزی کے نتیجے میں بنا، اس کے لیے جو چیزیں درکار تھیں وہ پوری نہیں تھیں لیکن 22لاکھ جرمانہ کر کےاسے بھی ریگولرائز کردیا گیا، بحریہ ٹاؤن پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، ان کے کام میں سپریم کورٹ کو کچھ بے ضابطگیاں نظر آئیں اور ان پر 460ارب ان پر جرمانہ کیا گیا اور انہیں ریگولرائز کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو خریداروں کی رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ جہاں بڑے لوگوں کے گھر، جائیدادیں تھیں ان کے لیے راستے نکالے گئے جو بری بات نہیں بلکہ جائز ہے کہ جہاں لوگوں کے گھر بن گئے ہوں، جہاں تیسرے فریق کا مفاد ہو وہاں راستے نکالنے چاہئیں لیکن یہ پیمانہ سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت نے ابھی ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے ذریعے وہ پنجاب میں 6ہزار سے زائد خلاف ضابطہ سوسائٹیز کو ریگولر کرنے جا رہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا ہے، یہی پیمانہ صوبہ سندھ کے لوگوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟۔
انہوں نے نسلہ ٹاور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت یہ چاہتی ہے کہ وہ لوگ جو ایسی عمارتوں میں رہتے ہیں جہاں قانون کی خلاف ورزی ہو گئی ہے، وہ گھر جو کسی رفاحی پلاٹ پر بنا دیے گئے ہیں جو ایم کیو ایم نے قبضے کر کے بنائے ہیں یا اگر کسی سرکاری پلاٹ پر کوئی آبادی بس گئی ہے تو ہمیں ان کی ریگولر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
سینیٹر کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی غیرقانونی کام ہو یا غلط جگہ گھر بنیں لیکن جہاں متاثرین کی تعداد لاکھوں میں چلی جائے اور وہ متاثرین دوبارہ گھر بنانے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو یہ حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے گھروں کو بچائے، اس کو ایک قانونی پہلو سے ہٹ کر انسانی نظریے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ عدالتوں کے جس قسم کے احکامات آ رہے ہیں اگر ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا تو صوبہ سندھ میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھیں: کراچی: امن و امان برقرار رکھنے کیلئے نسلہ ٹاور کے اطراف دفعہ 144 نافذ
انہوں نے کہا کہ ہمیں معزز جج صاحبان کی نیتوں پر کوئی شبہ نہیں ہے، وہ کراچی شہر میں غیرقانونی کاموں کو روکنا چاہتے ہیں جو بہت اچھی بات ہے، وہ کراچی کی خوبصورت کو بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا ہم اپنے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر کے یہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی اس بات پر غور کررہے ہیں کہ کوئی ایسا قانون بنائیں جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کوئی کمیشن بنایا جائے اور وہ یہ طے کرے کہ ان عمارتوں اور آبادیوں کو ہمیں کس طرح سے ریگولرائز کرنا ہے تاکہ ہم پاکستانیوں کے گھروں کو بچا سکیں۔
سعید غنی کی عدالت طلبی
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے بہادر آباد میں 16 منزلہ الباری ٹاور کی غٰرقانونی تعمیرات کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کے دوران سعید غنی کو طلب کیا تھا کیونکہ انہوں نے ان تعمیرات کو گرانے سے انکار کردیا تھا۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے استدلال کیا کہ عدالتی نوٹس کے باوجود پارک کی زمین پر عمارت غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی، انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ سعید غنی نے کہا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے لیکن غیر قانونی تعمیرات کو منہدم نہیں کریں گے۔
اس بات پر چیف جسٹس نے دوران سماعت برہمی کا اظہار کیا اور عمارت کی تصویر لہراتے ہوئے سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ سعید غنی کہاں ہیں؟۔
جسٹس احسن نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے لیکن عمارتوں کو نہیں گرائیں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ سعید غنی اپنے عہدے سے کب مستعفی ہوں گے؟۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سعید غنی سماعت پر موجود نہیں تھے اور وہ وزیر کو آگاہ کریں گے کہ انہیں عدالت نے طلب کیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ سماعت چل رہی ہے اور سعید غنی کو حاضر ہونا چاہیے تھا، ہم عمارت مسمار کرنے کا حکم دیتے ہیں اور وہ عمارتیں گرانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
عدالت نے سعید غنی کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ الباری ٹاور کے بلڈرز کو نیو ٹاؤن اسٹیشن ہاؤس آفیسر کے ذریعے نوٹس جاری کیا جائے۔
بعد ازاں سعید غنی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچے تھے جہاں انہوں نے الباری ٹاور کی تعمیر سے متعلق معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔