4 سال پہلے ہنزہ کی ایک خزاں دیکھنے کا موقع ملا تھا، اگر ہنزہ سے خنجراب کے سفر کے لیے نکلیں تو یہاں کچھ ہی فاصلے پر ایک پہاڑی سلسلے میں پتھروں پر کندہ ایک زبان کے آثار ملتے ہیں۔ ایسی زبان جس سے شاید ہی کوئی آشنا ہو۔ پتھروں پر لکھی جب وہ کہانیاں اتنے سالوں بعد پھر سے یاد آئیں تو مجھے کچھ سال پہلے ناروے کے شہر سارسبرگ اور اس کے گرد و نواح میں موجود پہاڑی سلسلوں پر کندہ کہانیوں کا ایک اور سلسلہ بھی یاد آنے لگا۔
چند خاکے سے ہیں، جیسے تصویر کشی کی گئی ہو، یا جیسے کسی راستے کی نشاندہی کی گئی ہو، کہیں کسی جانور کا نقش تو کہیں کشتی و بادبان کی شبیہہ تھی۔
کئی سفر ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے چند لمحوں میں ختم ہوجاتے ہیں لیکن ان کی یاد مدتوں آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ ای 6 موٹروے سے سویڈن کے راستے ناروے میں داخل ہوں تو تقریباً نصف گھنٹے کی مسافت پر سارسبرگ نامی ایک چھوٹا سا شہر آتا ہے، یہاں اس شہر سے پہلے ایک مقام پر ایک چھوٹا سا میوزیم طرز کا احاطہ بنایا گیا ہے جہاں پتھر کے زمانے سے لے کر آج کے انسان کے ارتقائی سفر کو پرانے زنگ آلود لوہے پر کندہ مختصر نقوش اور تاریخ کے ساتھ بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں دریافت ہونے والی تحاریر کو تانبے کے دور کی باقیات کہا جاسکتا ہے۔ انسانی ارتقا کی یہ کہانی بہت دلچسپ ہے۔ 8 ہزار قبل مسیح میں برف کا دور ختم ہوا، 7 ہزار قبل مسیح میں انسان نے پتھر سے ہتھیار بنانے کا آغاز کیا اور جانوروں کی کھال سے اپنے لیے جوتے بنائے اور تن ڈھانپنا شروع کیا۔ پھر وہ جنگلوں سے بستیوں کا مہمان ہوا، آگ جلانا سیکھا، جانوروں کا شکار کرنا سیکھا اور دھرتی کے سینے سے اناج پیدا کیا اور وہ جانور جن کو وہ مطیع کرسکتا تھا وہ پالتو ہونے لگے۔
یہیں کہیں 3 ہزار قبل مسیح میں پہلی تحریر نے جنم لیا، پہلی لکیریں جن سے مراد کچھ تھا۔ مجھے ہمیشہ سے لفظ کی پیدائش کا عمل پُرکشش لگتا چلا آیا ہے کہ وہ کیسے حالات ہوں گے جب انسان نے اپنے جذبات کو الفاظ کا روپ دیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ طے ہونے لگا کہ کس لفظ سے مراد کیا لیا جائے گا۔