دھابیجی انڈسٹریل زون منصوبے میں رکاوٹیں
اسلام آباد: پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت آنے والے دھابیجی انڈسٹریل زون (ڈی آئی زیڈ) منصوبے کے لیے حال ہی میں دیا جانے والا ٹھیکہ عدالت میں چیلنج کیے جانے کے بعد غیر یقینی کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست پر 29 نومبر (آج) کو سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوگی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹھیکہ دینے میں اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈ) کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں: سی پیک پر کام سست نہیں ہوا، اسد عمر کی یقین دہانی
صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ڈی آئی زیڈ کو اب تک ایس ای زیڈ کا درجہ نہیں دیا گیا، اس لیے اس پر خصوصی اقتصادی زونز کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
سی پیک اتھارٹی نے ہائی کورٹ میں ایک باضابطہ بیان بھی جمع کرایا تھا، جس میں بولی کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹھیکہ دینے میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے۔
سندھ اکنامک زونز منیجمنٹ کمپنی (ایس ای زیڈ ایم سی) کی ایک دستاویز کے مطابق ڈی آئی زیڈ کو خصوصی اقتصادی زون (ایس ای زیڈ) قرار دیا جائے گا۔
اربوں مالیت کا ڈی آئی زیڈ منصوبہ جسے ظاہر خان اینڈ برادرز (زیڈ کے بی) اور سندھ حکومت کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تیار کیا جائے گا، سی پیک کا حصہ ہے اور اسے بعد میں خصوصی اقتصادی زون کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
ڈیڑھ ہزار ایکڑ پر محیط اس منصوبے کو مرکز، حکومت سندھ اور سی پیک اتھارٹی کے ذریعے مشترکہ طور پر عمل میں لایا جارہا ہے جس کا مقصد اسے صوبے میں بڑی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: سی پیک اس مقام تک پہنچنے والا ہے، کوئی اسے روکنا بھی چاہے تو نہیں روک سکتا، اسد عمر
سندھ حکومت کو رواں برس فروری میں منصوبے کے لیے بولیاں موصول ہوئی تھیں، دو ماہ کی جانچ کے بعد بولی میں سے ایک کو ’تکنیکی طور پر نااہل‘ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد صوبائی حکومت نے دوبارہ بولی لگائی جس میں ’زیڈ کے بی‘ ناکامی کمپنی کامیاب ہوئی، اس کے بعد حکومت نے جیتنے والی فرم کو ایک لیٹر آف ایوارڈ (ایل او اے) جاری کیا۔
تاہم ٹھیکہ دینے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا جو 29 نومبر (آج) کو اس معاملے پر سماعت کرے گی۔
اس سے قبل 23 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ دھابیجی انڈسٹریل زون سمیت تمام اقتصادی زونز جلد مکمل ہو جائیں گے اور وہاں معاشی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔
تاہم انہوں نے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی سست رفتاری پر سندھ حکومت پر تنقید کی۔
جب سندھ حکومت کے ترجمان سعید غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ ٹھیکہ دینے میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔
علاوہ ازیں ایس ای زیڈ ایم سی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایوارڈ میں شفافیت اور منصفانہ عمل کو یقینی بنایا ہے کیونکہ کامیاب بولی دینے والے نے 16 ارب روپے کا حوالہ دیا تھا جبکہ دوسری سب سے کم بولی 13 ارب روپے روپے تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر کام کی سست رفتار سے چینی کمپنیاں پریشان
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے سے کُل آمدنی 32 ارب روپے ہے اور کامیاب بولی لگانے والے کو 5 سے 7 برس میں صوبائی حکومت کو 16 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ باقی رقم صوبائی حکومت کو اکنامک زون میں پلاٹ بیچ کر ادا کی جائے گی۔
اہلکار کا خیال تھا کہ ملک کے دیگر 17 صنعتی زونز کی طرح ڈی آئی زیڈ نے اب تک ایس ای زیڈ کا درجہ حاصل نہیں کیا ہے لیکن صوبائی حکومت بعد میں اس کے لیے درخواست دے گی۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی زونز کو فوری طور پر ایس ای زیڈ کا درجہ نہیں ملتا، ساتھ ہی مثال دی کہ ’لاہور میں علامہ اقبال اکنامک زون 2006 میں قائم کیا گیا تھا لیکن اسے 2016 میں ایس ای زیڈ کا درجہ ملا‘۔
عہدیدار نے بتایا کہ بدقسمتی سے عدالت کو درخواست گزار نے گمراہ کیا، جو یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ ڈی آئی زیڈ کو ٹھیکہ دیتے وقت ایس ای زیڈز کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا، معلوم ہوا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے ڈی آئی زیڈ پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ کامیاب بولی دینے والے نے ایل او اے کے اجرا کے ایک ماہ بعد بھی سندھ حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔