لیبیا: کرنل قذافی کے بیٹے صدارتی انتخابات کے لیے نااہل قرار
لیبیا کے سابق آمر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی کو الیکشن کمیشن نے آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق لیبیا کی ہائی نیشنل الیکشنز کمیٹی کی جانب سے جن امیدواروں پر پابندی لگائی گئی ہے ان کی فہرست بھی جاری کردی گئی ہے اور ان میں سیف الاسلام کا نام بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: لیبیا: معمر قذافی کے مطلوب بیٹے نے صدارتی انتخاب کیلئے رجسٹریشن کروالی
کمیٹی نے اس سزا کی وجہ سابق آمر کے بیٹے کے خلاف عدالتی سزا کو قرار دیا البتہ انہیں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل کر سکتے ہیں۔
2015 میں تریپولی کی عدالت نے سیف الاسلام قذافی کو سزائے موت سنائی تھی جہاں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ان کے والد کی معزولی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر تشدد کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا تاہم مذکورہ عدالتی فیصلے پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
2011 میں ان کے والد کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے خلاف انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کے الزامات پر وہ عالمی فوجداری عدالت کو بھی مطلوب ہیں۔
اقوام متحدہ کی ملک میں جمہوریت کے فروغ کی کوششوں اور ملک میں جنگ کے خاتمے کے بعد لیبیا میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا انعقاد 24 دسمبر کو ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: لیبیا: کمانڈر خلیفہ حفتر نے حکومت کی جنگ بندی کو مسترد کردیا
الیکشن پر چھائے ابہام میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب لیبیا میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا البتہ ان کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کے دوران ان کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ رک سکتے ہیں۔
کرنل قذافی ک یاقتدار سے برطرفی اور قتل کے بعد گزشتہ دہائی کے دوران لیبیا میں دو مخالف حکتوں کے درمیان مستقل تناؤ جاری رہا ہے اور ملک میں خانہ جنگی رہی۔
اس خانہ جنگی کو ترکی، روس اور شام جیسی غیرملکی طاقتوں کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقتوں کی مدد بھی حاصل رہی۔
کرنل قذافی کے بیٹے نے 14 نومبر کو تریپولی سے 650 کلومیٹر دور صبہا کے علاقے میں صدارتی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ 49سالہ رہنما عوامی سطح پر سامنے آئے تھے۔
مزید پڑھیں: لیبیا کی صدارتی کونسل نے وزیرخارجہ کو برطرف کردیا
لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی کرنے والے سیف الاسلام کو 2011 کے اواخر میں ملک میں کرنل قذافی کے خلاف کامیاب تحریک چلانے والوں نے انہیں گرفتار کر لیا تھا جہاں اس تحریک کو نیٹو کی حمایت بھی حاصل تھی اور اس تحریک کے نتیجے میں کربنل معمر قذافی کے 40سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔
اسی سال ہی ملک میں جاری لڑائیوں کے دوراک کرنل قذافی مارے گئے تھے اور یہ لڑائی بعدازاں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
سیف الاسلام تقریباً چھ سال قید میں رہے جس کے بعد جون 2017 میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب لیبیا میں اقوام متحدہ کے نمائندے جان کیوبس نے اپنا استعفیٰ جمع کرا دیا تھا البتہ یہ منگل تک منظر عام پر نہیں آیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ لیبیا کے لیے اہم تصور کی جانے والی اس تبدیلی میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے عہدہ چھوڑ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لیبیا میں ’نامعلوم جنگی طیاروں‘ نے ترکی کے ایئر ڈیفنس کو تباہ کردیا
اس فیصلے پر عالمی طاقتیں تقسیم نظر آتی ہیں جہاں مغربی ملکوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے تو وہیں روس نے اس کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ 24دسمبر کو ہونے والے الیکشن تک نمائندہ خصوصی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھے لیکن اقوام متحدہ نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے جس کا اطلاق 10دسمبر سے ہو گا۔