چین ایشیا کا امریکا کیوں ہے؟
عرصہ دراز سے میرا یہ ماننا رہا ہے کہ چینی اور امریکی بڑی حد تک یکساں مزاج رکھتے ہیں۔
جیو اسٹریٹجک تجزیہ کار اکثر چین امریکا دشمنی کو 2 ملکوں کی متضاد تفریقات کو دھیان میں رکھتے ہوئے زیرِ غور لاتے ہیں: مثلاً یہ انفرادیت پسند جبکہ وہ اشتراکیت پسند ہے، یہ آزاد مارکیٹ کی حامل معیشت ہے جبکہ وہ ریاستی سرمایہ داری نظام رکھتا ہے۔
چند ماہ قبل جب ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس میں لکھا پایا کہ چین اور امریکا میں رائج نظام ایسے ہیں جیسے دو کمپیوٹر دو مختلف آپریٹنگ سسٹم پر چل رہے ہوں۔ مگر چونکہ میں دونوں ملکوں میں شب و روز گزار چکی ہوں اس لیے مجھے جس بات نے حیران کیا وہ ملکوں میں پائی جانے والی مماثلت ہے۔
میرے نزدیک چینی ایشیا کے امریکی ہیں۔ عالمی اسٹیج پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کے طور پر امریکا اور چین دونوں ہی میدان پر بازی لینے کا جوش و جذبہ اور اپنے قومی مفاد کی خاطر فیصلہ کن انداز میں قدم اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ داخلی انقسام کے باوجود یہ دونوں ممالک مربوط و مستحکم وجود کے مالک ہیں جو کہ یک آواز ہو کر بولنا جانتے ہیں۔ سخت قوت (Hard power) کی حمایت یافتہ ان مملکتوں کے اسٹریجٹک منصوبہ ساز دور رس مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے دوستیاں اور دشمنیاں قائم کرتے ہیں۔
دوسری طرف بھارتی ایشیا کے یورپی ہیں۔ دونوں ہی فیصلہ سازی میں سست روی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ مخلوط سیاست کی کارروائیوں میں گھرے 27 رکنی یورپی یونین اور بھارت حقیقی نتائج اور کارکردگی سے زیادہ تکثیریتی رائے (plurality) اور مباحثے کو فوقیت دیتے ہیں۔ داخلی اختلافِ رائے یا فرقہ واریت کے ہاتھوں منظم و طویل الدمت ایجنڈوں کی تیاری دشوار ہوجاتی ہے اور یوں یہ دونوں خطے اکثر اپنے حقیقی مفادات کے کھلے اظہار سے بھی قاصر رہتے ہیں۔
چین کے موضوع پر میرے پسندیدہ امریکی لکھاری پیٹر ہسلر ہیں جو مبالغہ آرائیوں اور اسٹریٹجک تجزیوں سے دور رہتے ہوئے معقول اور عمومی تجربات بیان کرتے ہیں۔ ہسلر 1990ء کی دہائی کے آوخر سے اب تک کئی بار چین میں قیام کرچکے ہیں۔ اس موضوع پر وہ لکھتے ہیں کہ:
'امریکی اور چینی کئی لحاظ سے یکساں پائے گئے: دونوں حقیقت پسند اور غیر رسمی مزاج اور سادہ حس مزاح رکھتے ہیں، دونوں ممالک میں لوگ مثبت سوچ کے حامل ملے، بعض اوقات یہ مثبت پسندی کچھ حد سے زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ دونوں سخت محنت کرتے نظر آئے، ایسے میں کاروبار میں کامیابی اور اسی طرح پھر مادیت پسندی کا بڑھنا تو بنتا ہی تھا۔ یہ دونوں قومیں انتہائی محب وطن بھی دکھائی دیں مگر یہ حب الوطنی تجربے سے زیادہ بھروسے اور یقین پر مبنی تھی: دراصل دونوں ممالک کے نسبتاً بہت کم لوگوں نے اپنا زیادہ وقت بیرون ملک گزارا ہے لیکن پھر بھی ان کی اپنے وطن کے لیے بے انتہا محبت قائم رہی۔
'میں نے پایا کہ جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جاتے ہیں تو ان میں سے اکثر افراد اچھے سیاح نہیں بن پاتے، انہیں ہر چیز میں نقص نظر آتا ہے جبکہ نئی جگہ کے مطابق خود کو ڈھالنے میں انہیں دیر لگتی ہے۔ وطنِ غیر میں ان کا پہلا سوال عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ: یہاں کے لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟'
چین میں اپنے قیام کے دوران میں نے دونوں قوموں میں پہلی یکساں چیز اس وقت دیکھی جب مجھے یہ پتا چلا کہ چینی باشندے کس قدر بڑی بڑی چیزوں کو پسند کرتے ہیں: بڑی کاریں، کھانے پینے کی بڑی چیزیں، بڑی شاہراہیں۔ یہ دونوں قوموں کو لگتا ہے کہ حب الوطنی اور شاہ خرچی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
نومیڈ لینڈ
مجھے امریکا کے چینی-پنا کا احساس ایک مرتبہ پھر اس وقت ہوا جب میں نے رواں برس آسکر یافتہ فلم نومیڈ لینڈ دیکھی۔ ری ویوز کی توقعات کے مطابق یہ سنیمائی نظمیہ کہانی سی محسوس ہوئی: جیسے ایک جاندار نوحہ پیش کیا گیا ہو۔ جامع انداز میں تقریباً دستاویزی فلم کی طرح جدید امریکی خانہ بدوشوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رہائشی گاڑیوں میں رہتے ہیں، دہاڑی دار بن کر مختلف جسمانی مشقت سے بھرپور کام کرتے ہیں اور گوزنوں کی طرح موسم اور اپنے مزاج کو دیکھتے ہوئے دوسری جگہ ہجرت کرجاتے ہیں۔
حسب توقع، اس کہانی میں بڑی حد تک وسط مغربی امریکا سمایا ہوا ہے۔ فرانسز مک ڈورمینڈ جتنا ہی اہم کردار اس فلم میں دکھائے جانے والے قدرتی نظاروں نے نبھایا ہے۔ اور یہ فلم پرانی فلم سازی کی امریکی روایت کا ایک تسلسل ہے۔ نقادوں نے اسے عہدِ حاضر کی ویسٹرن تخلیق پکارا ہے۔
جس بات نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ فلم دیکھتے وقت ذہن میں اس خیال کا بار بار تیر آنا تھا کہ یہ تو کسی چینی فلم سے کم نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فلم ڈائریکٹر Chloe Zhao ایک چینی نژاد ہیں، اگرچہ ان کی چینی سنیما سے آگاہی نے نومیڈ لینڈ پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے لیکن اس کا اہم سبب فلم کا موضوع تھا جو بہت ہی امریکی اور ایک وقت پر بہت ہی چینی محسوس ہوا۔
نومیڈ لینڈ کا آغاز اور اختتام نویڈا کے ویران شہر ایمپائر میں ہوتا ہے۔ ایمپائر ایک متروکہ کمپنی ٹاؤن ہے جو اپنی اقتصادی شہ رگ یعنی جپسم کی کان کنی کے پلانٹ کی بندش کے بعد اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
جیا ژانکو اور چھٹی نسل
اس فلم نے مجھے چین کے فلم سازوں کی مشہور زمانہ چھٹی نسل کی فلموں کی یاد تازہ کردی، یہ نسل اپنے کم بجٹ، انفرادی نوعیت کی معاصر شہری زندگی اور مارکیٹ کی قوتوں کو ریاستی نوازشوں کے ملازمین پر مرتب ہونے والے مختلف نوعیت کے اثرات پر مبنی دستاویزی نما فلموں کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
ان فلم سازوں میں جیا ژانکو کا نام سب سے نمایاں ہے جو کہ کسی حد تک عالمی فلمی حلقے کے دلدادہ تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی 2006ء میں ریلیز ہونے والی فلم اسٹل لائف کو وینس فلمی میلے کے سب سے اعلیٰ اعزاز دی گولڈن لائن سے نوازا گیا تھا۔
اسٹل لائف میں ایک ایسا شہر دکھایا گیا ہے جہاں عنقریب بڑے پیمانے پر تھری گوجز ڈیم کا تعمیراتی کام شروع ہونا ہوتا ہے، اور اس فلم میں بھی وہی جسمانی اور جذباتی نقصان اور اقتصادی ترقی کے نام پر ہونے والی سخت گیر تبدیلی سے جڑے موضوعات کو بیان کیا گیا ہے جو نومیڈلینڈ میں بھی شامل ہیں۔
جیا کی ایک اور فلم 24 سٹی میں چینگڈو کے جنوب مغربی شہر میں سرکاری گولہ بارود کی فیکٹری کی جگہ املاک کی تعمیرات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے مزدوروں کی زندگی کا احوال پیش کیا گیا ہے۔ نویڈا اور چنگڈو بھلے ہی دنیا کے دو مختلف کونوں میں واقع شہر ہوں لیکن نومیڈ لینڈ اور 24 سٹی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح دنیا کے ان دور دراز حصوں میں لوگوں پر بے روزگاری کے باعث اکیلے رہ جانے کا شدید احساس طاری ہوجاتا ہے۔
ایک ہی سکے کے دو رخ
آخر میں نومیڈ لینڈ اور چین کی چھٹی نسل کی بہت سی فلمیں ایک ہی معاملے کے دو رخ کھنگالتی ہیں، اور وہ معاملہ ہے اقتصادی عالم گیریت۔
کئی جگہوں پر نومیڈ لینڈ میں ایک سے دوسری اسمبلی لائن تک جاتے مزدوروں اور 24 سٹی کے بہت سے یکساں فیکٹری برانڈ کے لیے کام کرنے والے مہاجر مزدوروں کے مناظر میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ مثلاً نومیڈ لینڈ میں ایمازور کو نمایاں طور پر دکھایا گیا ہے۔
امریکا میں فیکٹریوں کی بندش اور چین فیکٹری ملازم بننے کے لیے اپنے دیہاتوں کو چھوڑ کر ملک میں تعمیر ہونے والے نئے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لشکر دراصل اسی ایک اقتصادی مکینزم کا حصہ ہیں جو امریکا اور چین کو صارفی زنجیر میں باندھتی ہے۔
نومیڈ لینڈ کے نئے امریکی خانہ بدوشوں کو خود فلم کے ایک کردار اور متعدد ناقدین کی جانب سے امریکی علمبرداروں کے ایک ایسے جدید اوتار کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو مغرب کے ناہموار جنگل میں سے انفرادی حیثیت سے اپنا راستہ بناتے چلے جاتے ہیں۔
میرے لیے یہ خانہ بدوش چین کے مہاجر مزدوروں کے سستے اور اچھے متبادل ہیں۔
نومیڈ لینڈ کے مرکزی کردار، موسمی اثرات کے مارے چہروں کی جھریوں اور لبوں کے ساتھ وہ بس سے باہر بیرونی حالات کی زد میں سے آنے سے خود کو بچاتے ہوئے اپنی تقدیر کے خود مالک بننے کی پل سراط پر گامزن ہیں۔ وہ حال پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں کیونکہ مستقبل کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ موجودہ وقت میں چین میں کئی انسانی وجود بھی انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ مضمون سب سے پہلے دی وائر، انڈیا اور بعدازاں ڈان، آئی کون میں 21 نومبر 2021ء کو شائع ہوا۔