نیب کرنسی کی صورت میں رقم ریکور نہیں کرتا جس کا حساب دیا جاسکے، چیئرمین نیب
چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ نیب کو متنازع بنا رہے ہیں، نیب کرنسی کی صورت میں رقم ریکور نہیں کرتا اور ادارے کے آڈٹ میں بھی کوئی خرد برد سامنے نہیں آئی۔
لاہور میں ریکوریز کی ادائیگی سے متعلق تقریب سے خطاب میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کرپشن نے ہمارے ملک کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ ایک عام شہری کے لیے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے اپنے چار سال کی مدت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں ایک ہزار 270 کیسز کے ریفرنسز عدالتوں میں دائر کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پر یہ الزام ہے کہ نیب کے کیسز کا کوئی منطقی اختتام نہیں ہے، میں وضاحت کرتا ہوں کہ نیب کے کیسز کا اختتام اس وقت ہی ہوجاتا ہے جب کیسز عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ سیاست میں نیب کی وجہ سے زندہ ہیں اور نیب کی وجہ سے زندہ رہنا چاہتے ہیں، ان کی صبح اور شام نیب سے ہوتی ہے لیکن آپ سے گزارش ہے کہ تنقید کریں لیکن کچھ اصول ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، تنقید اس وقت جائز ہے جب آپ کو ادراک ہو کہ تنقید کس چیز پر کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا نیب سے متعلق حقائق ایوان بالا میں پیش کرنے کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ نیب کے کیسز پر فیصلہ دینا احتساب عدالتوں کا کام ہے، کیونکہ ہمارے پاس عدالتیں کم ہے اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے نئے قوانین بھی تشکیل دیے ہیں، اب روزانہ کی بنیاد پر کیسز حل کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہ جو ایک ہزار 270 ریفرنسز ہے ان میں 13 ارب زائد کی رقم کی خرد برد کی گئی ہے۔
چیئرمین نیب ریکوریز کے حوالے سے الزامات پر کا کہنا تھا کہ یہ چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہے، تنازع اٹھایا گیا کہ نیب جتنی رقم ریکور کرتا ہے کہاں جاتی ہے، تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ نیب کرنسی کی صورت میں رقم ریکور نہیں کرتا، اربوں روپوں کی اراضی سے قبضے چھڑوائے گئے اور مستحقین کو فراہم کیے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو کئی ٹن گندم ریکور کروا کر دی گئی، ہم یہ رقم جمع نہیں کرتے بلکہ آپ کی امانت ہے جو لوٹائی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب کا تین سال کا آڈٹ ہوچکا ہے، اس میں کوئی خرد برد سامنے نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: 'لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا چئیرمین نیب کا کام نہیں'
’نیب عہدیداران پر رشوت کا الزام لگانے والے ثبوت پیش کریں‘
جاوید اقبال نے کہا کہ کچھ لوگ نیب کو متنازع بنا رہے ہیں، یہ سوچتے تھےکہ ان کی خرد برد کبھی سامنے نہیں آئی گی، کچھ لوگ کہتے ہیں نیب کے عہدیداران رشوت لیتے ہیں اور اس کے ثبوت میرے پاس موجود ہیں تو میں ان سے کہوں گا کہ ثبوت پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نیب، حکومت نواز ہے ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کتنی درخواستیں دائر کیں اور کس کے خلاف دائر کیں، آپ ریفرنس دائر کریں میں 48 گھنٹے میں کارروائی کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نیب کی جرأت کیسے ہوئی کہ ہمیں بلائے، نیب کو یہ جرأت قانون نے دی ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نیب کے کیسز غلط ہیں تو الزام تراشی کرنے کے بجائے عدالت میں جائیں۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ماضی میں کچھ لوگ نیب کے خلاف عدالتوں میں گئے اور ثبوت کی بنیاد پر یہ سامنے آیا کہ نیب کے کیسز غلط نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الزام لگانا آسان ہے لیکن اس پر ثبوت پیش کرنا بہت مشکل ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی بھی الزام پر افسران کو گھر بھیج دیں، اس کے کچھ قواعد ہیں اور ان کے تحت ہی کام کیا جاتا ہے، ہم نے نیب میں دیانت، ذہانت اور امانت کے اصول متعارف کروائے اور اسی وجہ سے ہم ریکوریز کر کے آپ کو لوٹا رہے ہیں۔
’تاجر برادری سے ہم نے کالی بھیڑوں کو نکالا‘
تاجروں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تاجر اور رہزن میں فرق ہوتا ہے لہٰذا تاجر برادری سے ہم نے ان کالی بھیڑوں کو نکالا جنہوں نے رہزنوں کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، آج تک جتنے ریفرنسز بنے وہ ہواؤں میں نہیں بنائے گئے، لیکن ریفرنسز کی جانچ دوبارہ کی جارہی ہے، نیب کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔
مزید پڑھیں: سنگین الزامات کے بعد سلیم مانڈوی والا کی چیئرمین نیب سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ جو لوگ نیب پر الزامات لگاتے ہیں ان کو کہنا چاہوں گا کہ نیب نے جو ریفرنسز دائر کیے ہیں تمام تر قانونی ہیں اور یہ ریاست مدینہ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ایک قدم ہے جس کے لیے ہم سب کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
متاثرین سے مکالمہ کرتے ہوئے جاوید اقبال نے ہدایت دی کہ جس زمین پر آپ سرمایہ کر رہے ہیں اس کے بارے میں معلوم کریں کہ جس زمین پر اتنا بڑا منصوبہ بنایا جارہا ہے کیا منصوبہ بنانے والوں کے پاس اتنی بڑی زمین موجود ہے، یہ زمین منظور شدہ ہے یا اس پر کوئی مقدمہ تو نہیں چل رہا ہے اور منصوبہ پیش کرنے والا شخص اس کا اصل مالک ہے یا نہیں اور سوسائٹی میں کسی قسم کی کوئی قدغن تو نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی ادارے پر تنقید نہیں کر رہا لیکن یہ نظام کا مسئلہ ہے، تبدیلی آہستہ آہستہ عمل میں آئے گی۔