یہ جلتی آنکھوں اور گھٹتی سانسوں کو بچانے کا وقت ہے
ہم کتنے بہترین موسم سے محظوظ ہورہے ہیں اور کتنی تازہ و شفاف فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
کم از کم پنجاب کے وزیرِ ماحولیات باو رضوان کی بات سن کر تو ایسا ہی لگتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’پورے پنجاب میں گزشتہ 2 سال سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی اسموگ نہیں رہی‘۔
اس سے پہلے کہ گھٹتی سانسیں لیتے لاہوری ان کی بات کو رد کرتے انہوں نے خود ہی اپنی بات کی وضاحت بھی پیش کردی۔ انہوں نے بتایا کہ ’بنیادی طو پر اسموگ، دھویں اور دھند کا مرکب ہوتی ہے۔ اگر گزشتہ 2 سال سے دھند نہیں تھی تو اسموگ کا ہونا تو ناممکن ہے‘۔
بہرحال یہ بات ہم ماہرین ماحولیات کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ دھند نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ اسموگ بھی نہ ہو۔ لیکن یہ کچھ تو ہے، اس وقت آسمان سرمئی اور فضا آلودہ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا شہر بیماری کی لپیٹ میں ہے۔
یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ صورتحال میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی۔ لاہور شہر شروع سے ہی حکمران طبقے کا پسندیدہ شہر رہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں اس کے کزنز کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں کئی ایسی چیزیں ہیں جو اسموگ کا باعث بنتی ہیں، ان میں ناقص ایندھن، خراب گاڑیاں، اینٹوں کے بھٹّے، کھیتوں میں آگ لگانا اور درخت کاٹنا شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: اسموگ کیا ہے اور اس سے بچنا کیسے ممکن؟
ان مسائل کے بجائے وزیر موصوف نے سب سے بڑے دشمن کے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا اور وہ دشمن کوئی اور نہیں بلکہ مشکلات کا شکار شہری تھے۔ وزیرِ ماحولیات نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو شکایت کرتے ہوئے کہ کہا کہ ’اسموگ کے موسم میں کچھ بُری نیت رکھنے والے بے ایمان عناصر ایئر کوالٹی انڈیکس کی گمراہ کن/ غلط معلومات بیان کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔
تاہم اس بیان سے بھی ایک مثبت بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ ’اسموگ کے موسم‘ کا ذکر کرکے وزیر موصوف نے اپنے گزشتہ بیان کے حوالے سے تو کچھ لچک دکھائی کہ یہ آلودگی ایک سیکنڈ سے بھی کم کے بجائے یہاں کچھ ماہ تک موجود رہے گی۔
لاہور میں اسموگ بڑھی تو تخت لاہور نے ہر پیر کو اسکول اور دفاتر بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک وقتی حل ہے۔ اپنی تمام تر خوفناکی کے ساتھ یہ اسموگ ہر سال اکتوبر میں شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور تقریباً جنوری کے مہینے تک بھی اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت اسے وقتی مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کی فضا سال بھر آلودہ رہتی ہے۔
بھارت پر اسموگ پھیلانے کا الزام دہرانے کی بھی کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔ آخر یہ کون بھول سکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گل نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ اسموگ دراصل ’غیر روایتی جنگ‘ کا حصہ ہے؟ اور اس بات کی نفی کرتے اعداد و شمار کو نظر انداز کردیا گیا ہے (انہوں نے ماضی میں اس کا ذمہ دار ہوا کا معیار جانچنے کے آلات بنانے والی کمپنیوں کو قرار دیا تھا جو ہمیں اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتی تھیں)۔
یہاں تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے سے قبل یہاں 10 سال تک شہباز شریف برسرِ اقتدار رہے۔ چوڑی سڑکوں اور سگنل فری کوریڈور کی خاطر اس عظیم خادم نے لاہور کے درختوں کو بجلی کی تیزی سے کاٹا۔ ایک شہری منصوبہ ساز لیوئس ممفورڈ نے 1955ء میں کہا تھا کہ ٹریفک سے نمٹنے کے لیے سڑکیں چوڑی کرنا ایسا ہی ہے جیسے موٹاپے کے حل کے لیے اپنی بیلٹ ڈھیلی کرنا۔ شاید شہباز شریف نے یہ نا سنا ہو، ہم اس حوالے سے انہیں معاف کرسکتے ہیں۔
لیکن صورتحال کے کلائمیکس کے حوالے سے انہیں معاف کرنا کچھ مشکل ہے۔ پورے لاہور کو سیمنٹ کے جنگل میں تبدیل کرنے کے بعد شہباز شریف کو کچھ خیال آیا اور انہوں نے بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ امریندر سنگھ کو ایک خط لکھا۔ شہباز شریف نے خط میں اسموگ کے تدارک کے لیے ایک ’علاقائی تعاون کے معاہدے‘ کی تجویز دی۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو کاٹے گئے ہزاروں درخت کس طرح دوبارہ اُگ جاتے۔
بہرحال لاہور کے تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ انسانوں کی جلتی آنکھوں اور گھٹتی سانسوں کو بچانے کے لیے اب اس مسئلے کو حل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و ذراعت کے مطابق پنجاب میں فضائی آلودگی کا باعث بننے والے مادوں کا اخراج سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ کے شعبے (43 فیصد)، پھر صنعتوں (25 فیصد) اور اس کے بعد ذراعت کے شعبے (20 فیصد) سے ہوتا ہے۔ یعنی کھیتوں میں آگ لگانا اسموگ کی ایک اہم وجہ ضرور ہے لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہے۔
اسموگ کے تدارک کے لیے ضروری اقدامات کی فہرست طویل ہے۔ سب سے پہلے تو کم معیار کے زیادہ گندھک (sulphur) والے ڈیزل کی درآمد کو بند کرنا ہوگا، پھر گاڑیاں بنانے والی بڑی کمپنیوں کو کم آلودگی خارج کرنے والی گاڑیاں بنانے پر تیار کرنا، آئل ریفائنریز کو کم گندھک والے ایندھن کی تیاری پر منتقل کرنا، کوئلے سے بجلی بنانے والے بجلی گھروں سے جان چھڑانا، صنعتی شعبے کو ایسی ماحول دوست پالیسیوں سے ریگولیٹ کرنا جو کاغذی کارروائی تک محدود نہ ہوں، پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کرنا، درختوں میں اضافہ کرنا اور کھیتوں میں آگ لگانے کے عمل کو روکنا ہوگا۔
لیکن ان تمام کاموں کے لیے کافی وقت درکار ہوگا اور یہ ہر نومبر میں چھٹیوں کا اعلان کرنے سے زیادہ مشکل اور محنت طلب کام ہوگا۔
اس حوالے سے کچھ قانونی مسائل بھی ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد سے زمین کو سرسبز اور صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری وفاق سے صوبوں کو دے دی گئی تھی۔ اسی وجہ سے وفاقی وزارتِ ماحولیات کو وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کا نام دے دیا گیا۔ تاہم اسموگ کے مسئلے کے حل کے لیے کم از کم ایک قومی سطح کی کوشش کی ضرورت ہے جس میں تقریباً تمام حکومتی شعبے، خاص طور پر وفاقی پیٹرولیم ڈویژن کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔
ہم اب تک ایک بنیادی وجہ کی نشاندہی نہیں دے سکیں ہیں۔ یہ وہ وجہ ہے جو فضا میں اسموگ کے ساتھ ساتھ، زمین پر خشک سالی، شہروں میں پُرتشدد واقعات اور تقریباً تمام قومی مسائل کی وجہ بنتی ہے، اور وہ وجہ ہے ہماری آبادی۔
شرح پیدائش اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافے اور وسائل اور زمین کی فراہمی میں پیدا ہوتی ہوئی تنگی کی وجہ سے ہم ایک ایسے بحران سے قریب تر ہوتے جائیں گے جس سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا۔ اس بحران سے بچنے کے لیے آج اور ابھی سے کوششیں شروع کرنا ہوں گی۔
یہ مضمون 25 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری بیرسٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔