پاکستان

چیئرمین قائمہ کمیٹی کا احتساب آرڈیننس ترمیمی بلز پر ووٹنگ کی اجازت دینے سے انکار

ریاض فتیانہ نے اراکین کو اجلاس ختم ہونے سے قبل اپنے تحفظات، خدشات کو تجویز کی صورت میں تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں شامل اپوزیشن اراکین نے کمیٹی چیئرمین کی جانب سے حکومتی اراکین کو شکست ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر احتساب آرڈیننس ترمیمی بل پر ووٹنگ کرانے سے انکار پر احتجاج کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین ریاض فتیانہ سمیت 20 ارکان میں سے 6 حکومتی اور 10 اپوزیشن ارکان موجود تھے۔

اجلاس قومی احتساب آرڈیننس (دوسری ترمیم) بل 2021 اور قومی احتساب آرڈیننس (تیسری ترمیم) بل 2021 سمیت 5 بلز پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ترمیم شدہ قومی احتساب آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں بھیجنا چاہیے، اٹارنی جنرل کی وزیر اعظم کو تجویز

اپوزیشن کی جانب سے دونوں بلز پر ووٹنگ کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریاض فتیانہ نے اراکین کو اجلاس ختم ہونے سے قبل اپنے تحفظات، خدشات کو تجویز کی صورت میں تحریری طور پر جمع کروانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ حکومت پہلے ہی آرڈیننسز کے ذریعے دونوں قوانین کو نافذ کر چکی ہے۔

پہلا آرڈیننس حکومت کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی مدت ملازمت میں ان کے جانشین کے تقرر تک توسیع دینے کی اجازت دیتا ہے جبکہ دوسرے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کے تقرر کا اختیار صدر مملکت کو تفویض کردیا گیا ہے۔

بلز پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان کی اکثریت نے حکومت کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

اپوزیشن ارکان نے چیئرمین نیب کی نامزدگی کے طریقہ کار اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے بطور جج احتساب عدالتوں میں تقرر اور احتساب عدالت کے ججز کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: ایک ماہ سے کم عرصے میں نیب قوانین میں ترامیم کا نیا آرڈیننس جاری

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین نے چیئرمین نیب جاوید اقبال کی مدت میں توسیع اور ان کی تعیناتی کا اختیار صدر کو دینے پر وزیر قانون فروغ نسیم سے تابڑ توڑ سوالات کیے۔

اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان مین دعویٰ کیا کہ کمیٹی اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو احتساب آرڈیننس ترمیمی بلز پر اپوزیشن کے ہاتھوں شکست ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر قانون اجلاس میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے آئے اور گرما گرم بحث کے بعد جب اپوزیشن اراکین نے ووٹنگ کا مطالبہ کیا تو کمیٹی اجلاس سے باہر چلے گئے۔

اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی رانا ثنااللہ نے کہا کہ چونکہ ترمیمی بل کے مطابق کابینہ کے اجتماعی فیصلوں کو نیب کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا ہے تو کابینہ کے غلط فیصلوں پر کون کارروائی کرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ہی وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور محکمہ انسداد بدعنوانی بھی اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کر سکیں گے جب ان کے سربراہ کا تقرر ہی حکومت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ یہ معاملات احتساب بیورو کے پاس ہی رہتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے کہا کہ اگر وہ پہلے موقع کھو چکے ہیں تو انہیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی کوتاہیوں اور خامیوں کے معروضی قانون سازی کرنا چاہیے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کے پی ٹی آئی رکن لال چند نے کمیٹی کے اجلاس میں دوہرا معیار اپنانے پر اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پی ٹی آئی کے قانون ساز نے کہا کہ کمیٹی چیئرمین ریاض فتیانہ نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ بل کی پہلی اور دوسری ریڈنگ کریں گے اور اگر کمیٹی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی تو اسے ووٹ کے لیے رکھا جائے گا۔

فیس ماسک کے بغیر سماجی دوری کا کوئی فائدہ نہیں، تحقیق

ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کلپ کے فرانزک پر دھمکی دی جارہی ہے، امریکی کمپنی

ایکنک نے 190 ارب روپے کے روڈ انفرااسٹرکچر منصوبوں کی منظوری دے دی