دنیا

یورپ میں کورونا سے مزید 7 لاکھ اموات کا خدشہ ہے، ڈبلیو ایچ او

یکم مارچ 2022 تک یورپی ممالک کے انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یو) پر بہت زیادہ دباؤ بڑھنے کا امکان ہے، عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ یورپ اب بھی کورونا وائرس کی ’مضبوط گرفت‘ میں ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو رواں موسم سرما میں ہلاکتوں کی تعداد 22 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یورپ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نبرد آزما ہے جس کی وجہ سے رواں ہفتے آسٹریا میں دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا جبکہ جرمنی اور نیدرلینڈز بھی پابندیوں کے اعلان کے لیے تیار ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ یکم مارچ تک وبا سے مزید 7 لاکھ یورپی ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ اس سے قبل کورونا وائرس کے باعث 15 لاکھ افراد دم توڑ چکے ہیں۔

انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اب سے یکم مارچ 2022 کے درمیان براعظم کے 53 میں سے 49 ممالک میں انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یو) پر بہت زیادہ دباؤ بڑھنے کا امکان ہے‘۔

یورپ کے دوبارہ وبا کا مرکز بننے کا ذمہ دار کچھ ممالک میں سست روی سے جاری ویکسین مہم کو ٹھہرایا گیا ہے، مہلک ڈیلٹا ویرینٹ اور موسم سرما نے پابندیوں میں نرمی کو محدود کرتے ہوئے شہریوں کو دوبارہ گھروں میں منتقل کردیا ہے۔

یورپی یونین کی 67.7 فیصد آبادی مکمل طور پر ویکسینیٹڈ ہے۔

مختلف یورپی ممالک میں ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد مختلف ہے، سب سے کم ویکسین مشرقی ممالک میں لگائی گئی ہے، یہاں صرف 24.2 فیصد بیلجیئنز مکمل طور پر ویکسینیٹڈ ہیں جبکہ اس کے مقابلے پرتگال میں 86.7 فیصد افراد مکمل ویکسین لگوا چکے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے 53 ممالک پر مشتمل یورپی ریجن میں ایک روز میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد 4 ہزار 200 پر پہنچ چکی تھی، جو ستمبر میں ایک روز میں ہونے والی 2 ہزار 100 اموات کے مقابلے دگنی تعداد ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کے شواہد بڑھ رہے ہیں کہ ویکسین کی حوصلہ افزائی سے متعدی مرض میں کمی آرہی ہے۔

یونان، فرانس اور جرمنی سمیت متعدد ممالک میں کسی شخص کو ویکسینیٹڈ سمجھنے کے لیے تیسری خوراک کی بوسٹر لگائی جارہی ہے۔

چانسلر انجیلا میرکل نے خبردار کیا تھا کہ جرمنی میں کورونا کی روک تھام کے لیے جتنے اقدامات اٹھائے گئے ہیں یہ کافی نہیں ہیں، کورونا وائرس کی چوتھی لہر ’انتہائی ڈرامائی‘ ہے۔

یورپ میں انتہائی نگہداشت یونٹ کی بات کی جائے تو یہاں تیزی سے مریضوں کو داخل کیا جارہا ہے اور رواں ہفتے کیسز کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے، ہر ایک لاکھ افراد پر نئے کیسز کی تعداد 399.8 ہے۔

یورپ میں کورونا وائرس سے جرمنی کا خطہ شدید متاثر ہونے کے بعد لاک ڈاؤن کا نیا اعلان کردیا گیا ہے، اس دوران کرسمس کی مارکیٹیں بھی بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے پیش نظر امریکا کے محکمہ خارجہ نے امریکی شہریوں کو جرمنی اور اس کے پڑوسی ملک ڈنمارک سفر نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔

دریں اثنا آسٹریا میں دکانیں، ریسٹورنٹس اور بڑی مارکیٹیں بند ہیں اور حالیہ مہینوں میں شمالی یورپ میں سخت پابندیوں کا سلسلہ دیکھا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے یورپی ریجن کے حصے اسرائیل نے سرد موسم کے چیلنج سے قبل 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کو ویکسین کی خوراک دینا شروع کردی ہے، اسرائیل ان ممالک میں سے ایک ہے جو کم سن بچوں کو ویکسین لگا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں نئے رپورٹ ہونے والے کیسز میں تقریباً نصف تعداد 11 سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔

دوسری جانب بیٹی کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد عالمی وبا کا شکار ہونے والے فرانس کے مکمل ویکسنیٹڈ وزیر اعظم جین کاسٹکس پیر کی رات سے قرنطینہ میں ہیں۔

ڈبلیو ایچ او یورپ کے ریجنل ڈائریکٹر ہنس کلوگے کا کہنا تھا کہ یورپ اور وسطی ایشیا کے لیے’ آنے والی سردیوں میں چیلنجز کا سامنا ہے‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ویکسین پلس‘ کا نقطہ نظر ویکسی نیشن کے مجموعے، سماجی فاصلے، ماسک کے استعمال اور ہاتھ دھونے پر مشتمل ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ حالیہ مطالعے کے مطابق ماسک کورونا وائرس کے خطرے کو 53 فیصد روکتا ہے اور اگر دنیا میں 95 فیصد ماسک استعمال کیے جائیں تو اس کے ذریعے یکم مارچ تک متوقع ایک لاکھ 60 ہزار اموات سے بچا جاسکتا ہے۔

تاہم موسم سرما میں کورونا وائرس سے متعلق متوقع نئی پابندیوں سے متعدد ممالک میں بدامنی پیدا ہوگئی ہے۔

بیلجیئم، نیدرلینڈز اور فرانس کے گواڈیلوپ میں واقع کیربیئن جزیرے اور مارٹینیک میں منگل کو بھی کورونا وائرس سے متعلق نئے قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔

ڈچ پولیس نے چوتھے روز بھی تصادم میں کم و بیش 21 افراد کو گرفتار کیا، اس تصادم کو وزیر اعظم مارک روٹ نے ’بیوقوفوں‘ کی جانب سے ’خالص تشدد قرار دیا گیا تھا۔

ان کے بیلجیئن ہم منصب الیگزینڈر ڈی کرو نے برسلز میں 35 ہزار افراد کے احتجاج کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا۔

’ملک میں صرف 25 فیصد نوجوان ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں‘

’ہمیں بابر کی کپتانی سے نہیں، ان کی بیٹنگ سے پریشانی ہونی چاہیے‘

امریکا کا طالبان کو فائدہ پہنچائے بغیر افغان بینکاری نظام میں لیکویڈیٹی شامل کرنے پر غور