قطر کو پاکستان میں ایل این جی ٹرمینل میں حصص خریدنے کی منظوری مل گئی
اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے سرکاری قطر انرجی کی ایل این جی ٹرمینل میں 49 فیصد حصص حاصل کرنے کی بولی منظور کرلی، جس سے پاکستان کی توانائی مارکیٹ میں قطر کی پہلی براہ راست سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انرگیس اس وقت تین مقامی کاروباری گروپس لکی، سیفائر اور ہالمور کی ملکیت ہے۔
مزید پڑھیں: گیس کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمینلز تعمیر کرنے والوں کے ساتھ تعاون کی ہدایت
قاسم ٹرمینل ہولڈنگ ایل ایل سی (کیو ٹی ایچ ایل) قطر انرجی کا ذیلی ادارہ ہے جسے پہلے قطر پیٹرولیم کہا جاتا تھا جس کے سرکاری پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ساتھ طویل مدتی ایل این جی سپلائی کے دو معاہدے ہیں۔
قطری فرم نے مسابقتی ایکٹ 2010 کے سیکشن 11 کے تحت انرجی گیس کے 49 فیصد شیئر ہولڈنگ کے مجوزہ حصول کے لیے سی سی پی کے سامنے انضمام سے قبل ایک درخواست دائر کی تھی۔
انرگیس ان دو پارٹیز میں سے ایک ہے جو حکومتی ضمانتوں اور پروسیسنگ فیس کے تحت قائم کیے گئے موجودہ دو ٹرمینلز کے مقابلے میں اس وقت حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کے ساتھ ’مرچنٹ ماڈل‘ پر اضافی ایل این جی ٹرمینلز کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہے۔
قطر، ایل این جی کا سب سے بڑا پیداواری ملک اور برآمد کنندہ ہے اور حالیہ مہینوں میں اپنی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے اور ایل این جی کی برآمدی منڈیوں میں مزید رسائی حاصل کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2025 تک دنیا میں ایل این جی کی قلت ہوسکتی ہے، قطر
گزشتہ مہینے کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے دو نئے ایل این جی ٹرمینل ڈیولپرز انرگیس اور تبیر انرجی کو گیس کے اضافی انفراسٹرکچر میں ان کی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے پائپ لائن کی گنجائش مختص کرنے کی منظوری دی۔
تبیر انرجی جاپان کی مِٹسوبشی کارپوریشن کا ذیلی ادارہ ہے۔
ایک سرکاری اعلان کے مطابق نئے ٹرمینلز کے قیام سے متعلق بین الوزارتی کمیٹی (آئی ایم سی) کی رپورٹ پر وزارت سمندری امور کی سمری پر بحث کرتے ہوئے سی سی او ای نے ’پائپ لائن کی گنجائش مختص کرنے کی منظوری دی اور نئے ٹرمینلز کے قیام کے کام کو تیزی سے آگے بڑھانے کی ہدایت کی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ پیٹرولیم ڈویژن اور سوئی گیس کمپنیاں نجی شعبے کے نئے ٹرمینل ڈویلپرز انرجی اور تبیر انرجی کے لیے پائپ لائن کی صلاحیت کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت نے جس کمپنی کو چور کہا اسی سے ایل این جی خریدی، شاہد خاقان عباسی
رپورٹ میں کہا گیا کہ نئے ایل این جی ٹرمینل ڈیولپرز کے لیے 600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پائپ لائن کی گنجائش موجود ہے اور ریگولیٹر نے بھی اسی صورتحال کی تصدیق کی۔
اس میں کہا گیا کہ ایس این جی پی ایل کے پاس 1200 ایم ایم سی ایف ڈی پائپ لائن کی کل گنجائش اور 2024 تک ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی کا طویل مدتی معاہدہ تھا جبکہ 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے الیکٹرک اور 250 ایم ایم سی ایف ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی کو منتقل کر دی گئی تھی، جس 600 ایم ایم سی ایف ڈی کی گنجائش باقی تھی۔