تمر کے جنگلات کی اہمیت ماضی کے مقابلے اب مزید کیوں بڑھ گئی ہے؟
ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم اپنے میزبان طارق ایلکزینڈر قیصر اور تیمور مرزا کی دعوت پر تمر کے جنگلات یا یوں کہیے کہ ماندہ جنگلات کا دورہ کرنے جارہے تھے۔ بدقسمتی سے تمر کے جنگلات کو کاٹے جانے کا عمل ان کے دوبارہ اگنے سے زیادہ تیز ہے۔
آپ کورنگی کریک پر کسی بھی مچھیرے سے کرائے پر کشتی حاصل کرکے بنڈل آئی لینڈ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ٹریژر آئی لینڈ کی مقامی صورت کی طرح لگتا ہے جہاں بے یار و مددگار بینجمن گن کی جگہ آپ کو آوارہ کتے اور اونٹ نظر آئیں گے جنہیں مقامی مچھیرے کھانا ڈالتے ہیں۔ جیسے ہی آپ جزیرے کے قریب پہنچیں گے ویسے ہی آپ کو کراچی کی بلند و بالا عمارتوں کے سامنے اونٹوں کا قافلہ نظر آئے گا۔
تیمور نے ہم سے کہا کہ ’قدرت نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے وہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو محفوظ رکھنا سیکھنا ہوگا۔ تمر کے جنگلات کو بچانے کا اصل وقت تو گزرا ہوا کل تھا، آنے والے کل تک تو بہت دیر ہوجائے گی‘۔
جزیرے کے قریب ہمیں اچانک ایک سرمئی رنگ کی چیز نظر آئی۔ طارق نے اسے دیکھ کر کہا کہ ’وہ دیکھو! میرے خیال سے میں نے کچھ دیکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ صرف کچرا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی ڈولفن ہو‘۔
حیران کن طور پر وہ ایک ڈولفن ہی تھی اور اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ ہم بہت خوش قسمت تھے کہ ہمیں یہ مچھلی نظر آئی، ہمیں بتایا گیا کہ یہاں اس مچھلی کو کم از کم 6 سال بعد دیکھا گیا ہے۔ اس مچھلی نے واپس جانے سے قبل ہمیں خوب محظوظ کیا۔
موٹر بوٹ کے ذریعے تمر کے جنگلات میں راستہ بناتے ہوئے ہم ایک جگہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے۔ ہمیں دُور سے آتی ایک آواز اور تمر کے پھولوں کی لطیف مگر تازگی سے بھرپور خوشبو نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ تمر کے پھول اس قدرتی ماحول کے لیے بہت ضروری ہیں کیونکہ یہ شہد بناتے ہیں اور جنگل کی دوبارہ تخلیق کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اونٹ ان کے بیجوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ طارق نے نشاندہی کی کہ ’آپ جو یہ دُور سے آتی ہوئی آواز سن رہے ہیں وہ دراصل شہر کی آواز ہے‘۔
مزید آگے بڑھ کر آپ کو کارمورنٹ، ایگریٹ، بگلے، برہمنی کائیٹ (چیل کی طرح کا پرندہ)، گل، پلوورس، فلیمنگو اور اگر آپ بھی ہماری طرح خوش قسمت ہوئے تو گنگ فشر بھی نظر آسکتا ہے۔ ہمارے سامنے سے ایک کنگ فشر ایک لمحے کے لیے اڑتا ہوا گزرا تھا۔
چمکتی کالی آنکھوں اور سیاہ اور نارنگی رنگ کے چھوٹے چھوٹے کیکڑے تمر کی شاخوں پر موجود تھے جن کی وجہ سے سبز پس منظر پر ایک نارنگی رنگ کی جھلک آگئی تھی۔ کراچی کے تمر کے جنگلات میں موجود کیکڑوں کی آبادی کا بڑا حصہ ان ہی براچیورن کیکڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ کاپروفیگس فوڈ چین کی بنیاد ہیں اور تمر کی ثانوی پیداوار میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
سندھ کے تمر جنگلات میں ان کیکڑوں کی 16 سے زائد اقسام کا پتا لگایا گیا ہے جو خطرہ محسوس ہونے پر درخت پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کیکڑے پتوں کو ری سائیکل کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اس سے پہلے کہ لہریں انہیں بہاکر لے جائیں وہ اپنے اندر موجود توانائی خارج کردیتے ہیں۔
ریاض وگن سندھ فارسٹ، مینگروو اینڈ رینج لینڈ کے چیف کنزرویٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’2010ء سے سندھ کا محکمہ جنگلات تمر کے نئے پودے لگانے کے ساتھ ساتھ 8 سے 10 ہزار ہیکٹر پر پھیلے تمر کے جنگلات کی حفاظت کے لیے تمر کی سالانہ شجر کاری کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے‘۔
ان کے مطابق ’گزشتہ 8 سالوں میں ہم تمر کے جنگلات میں 90 ہزار ہیکٹر کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی حفاظت پر زور دینا چاہیے کیونکہ تمر کے پودے کو پختہ ہونے میں کم از کم 25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے‘۔
ریاض وگن کے مطابق سالانہ شجرکاری گزشتہ مہینے ہی مکمل ہوئی ہے اور اس سے مقامی آبادی کو 1994ء سے روزگار مل رہا ہے۔ کورنگی کریک سے کاجار کریک تک 10-2009ء میں جو تمر کے جنگلات 1 لاکھ 7 ہزار ہیکٹر پر تھے وہ 2021ء میں 2 لاکھ 20 ہیکٹر تک پھیل چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا منصوبہ ہے کہ 2023ء تک ہم 30 ہزار مزید پودے لگائیں گے اور 2 لاکھ 60 ہزار ہیکٹر کا ہدف رکھیں گے، 1980ء کی دہائی میں بھی تمر کی تعداد یہی تھی‘۔
یہاں موجود تمر کے جنگلات میں 4 اقسام کے تمر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ اقسام rhizopora mucronata ،aegiceras corniculatum ،ceriops tagal ،avicennia marina ہیں۔ یہاں دیگر اقسام کی نسبت ان 4 اقسام کے تمر تقریباً 90 فیصد ہیں۔
طارق نے نشاندہی کی کہ پاکستان کو درپیش ماحولیاتی ایمرجنسی کو دیکھتے ہوئے اگر یہ جنگلات ختم ہوگئے تو کراچی شہر کو بہت خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سمندر کی بھرائی اور پختہ تمر کی کٹائی سے پورٹ قاسم اور کیماڑی کی بندرگاہ پر منفی اثرات پڑیں گے۔ ان درختوں کی جڑوں کا ایک مضبوط نظام ہوتا ہے جو دریائی اور زمینی تلچھٹ کو روک کر طوفانوں اور سیلاب کے آگے ایک قدرتی رکاوٹ بناتا ہے۔ جس سے کٹاؤ کی رفتار کم ہوتی ہے اور ساحلی علاقے محفوظ رہتے ہیں‘۔
ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کراچی کو مون سون بارشوں میں بدلاؤ اور طوفانوں کے خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے تمر کے جنگلات پہلے سے زیادہ ضروری ہوچکے ہیں تاکہ یہ کسی بھی ممکنہ سونامی کے آگے ڈھال بن کر شہر کو سیلابی صورتحال سے بچا سکیں۔ صرف اگست 2020ء میں کراچی میں 484 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے ڈیٹا کے مطابق 1985ء سے 2014ء تک کراچی میں سالانہ اوسط بارش 10 سے 150 ملی میٹر رہی تھی۔
طارق نے ہمیں بتایا کہ ’تمر کے درخت دیگر درختوں کی نسبت 18 فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور سندھ میں پائی جانے والی وہ تمام جنگلی حیات جو سی فوڈ میں شامل ہیں یہیں پروان چڑھتی ہیں‘۔
تمر کے جنگلات کی تباہی کی وجوہات میں ان کی غیر قانونی کٹائی، شہرکاری اور صنعت کاری کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ تاہم ماہرینِ ماحولیات بنڈل آئی لینڈ کے اطراف میں کنکریٹ کے منصوبوں کے حوالے سے بھی فکرمند ہیں، جس سے نہ صرف یہاں کے قدرتی ماحول کو مزید نقصان پہنچے گا بلکہ مچھیروں کا روزگار بھی ختم ہوجائے گا۔
کراچی میں فضلے کو یوں ہی سمندر میں پھینکنے اور سمندری ماحولیات کو مزید آلودہ کرنے کے بجائے انڈونیشیا اور سری لنکا کی مثال کو اپنانا چاہیے جنہوں نے نہ صرف اپنے تمر کے جنگلات کو مکمل طور پر محفوظ بنایا بلکہ ایکو ٹورازم [ماحول دوست سیاحت] کے ذریعے انہیں سرمائے کے حصول کا ذریعہ بھی بنایا۔
دوسری جانب کراچی میں ان لوگوں کی جانب سے تمر کی غیر قانونی کٹائی کی جارہی ہے جنہیں خبروں میں اکثر ’ٹمبر مافیا‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ ’ٹمبر مافیا‘ عموماً غریبوں کی ضرورت ہی پوری کرتا ہے۔ جس وقت سمندر اترا ہوا ہوتا ہے تب درختوں کو کاٹا جاتا ہے اور کشتیوں کے ذریعے لکڑیوں کو ساحلی قصبوں اور علاقوں میں ایندھن کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات انہیں گرفتار کرکے ان پر جرمانہ کیا جاتا ہے تاہم قانون کے کمزور نفاذ کے باعث یہ لوگ دوبارہ یہ کام شروع کردیتے ہیں۔
واپسی کے دوران ہم نے کچھ ثبوت بھی دیکھے۔ کٹے ہوئے کئی درخت وہاں پڑے سڑ رہے تھے اور ہماری جانب رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
یہ مضمون 21 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری بلاگر ہیں اور پینٹنگ، جنگلی حیات کی تصویریں لینے اور سفر کرنے کا شوق رکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔