پاکستان

’محض مسلح جھڑپوں کی عدم موجودگی امن کی ضامن نہیں‘

ریاست اور حکومت کو انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شہریوں کو روزگار کے مساوی مواقع دینے چاہیے، سماجی ماہرین

طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے اور ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قانون کی حکمرانی، سماجی تعلیم، شہریوں کی برابری کے علاوہ نوجوانوں اور خواتین کی ملکی امور میں شمولیت انتہائی اہم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار ماہرین نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام ’پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے پرامن رویوں کا فروغ‘ کے موضوع پر مقامی ہوٹل میں منعقد دو روزہ علاقائی کانفرنس میں کیا۔

اس تقریب کا مقصد ماہرین کے تعاون سے ملک میں دیرپا امن کے حصول کے لیے امن کا چارٹر تشکیل دینا تھا جس پر اہم اسٹیک ہولڈرز کی حمایت اور توثیق کے ساتھ عملدرامد کیا جاسکے۔

تقریب کے مختلف سیشنز میں صحافیوں، مذہبی اسکالرز، ماہرین تعلیم، سماجی کارکن، سابق فوجی حکام، سول سوسائٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں سمیت دیگر افراد نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: انتہا پسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں، اسکول اور کالجز ہیں، فواد چوہدری

ڈائریکٹر پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز محمد عامر رانا اور ادارے کے پراجیکٹ مینیجر نجم الدین نے تقریب کی میزبانی کی۔

مقررین نے واضح کیا کہ روایتی اسکولوں اور کالجوں کے طلبا بھی مدارس کے طلبا کی طرح بنیاد پرستی کا شکار ہوسکتے ہیں اس لیے انہیں بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر ان کے لیے جگہیں بنا کر مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نوجوانوں کی ایسی پرامن تحریکوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت پر زور دیا جو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے لیے کھڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک میں امن کے لیے مطلوبہ چارٹر کے بنیادی اجزا ہیں۔

مقررین کا خیال تھا کہ ریاست، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جوابی بیانیہ دینے کے لیے آگے بڑھنا اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے اور معاشرے میں تمام شہریوں کے لیے رواداری اور مساوات کو فروغ دینے کے لیے شہری تعلیم اور آئین سے متعلق آگاہی کو یقینی بنانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'عالمی وبا نے انتہا پسندی کو بڑھایا، غربت کے خلاف جنگ متاثر ہوئی'

تقریب کے شرکا کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کو جو بھی موقع میسر ہو اسے انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانیہ دینے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس میں نوجوانوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ معاشرے میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اور حکومت کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ سمجھوتہ صرف ایک وقتی حکمت عملی ہے لیکن مستقبل میں اس کے کوئی دیرپا نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’انتہا پسندی کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کے لیے مناسب حکمت عملی ہونی چاہیے۔

سابق کور کمانڈر پشاور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم نے پینل ڈسکشن میں کہا کہ نرم حکمت عملی اپنانے کا موقع ہمیشہ سخت اقدامات کے نتیجے میں ہی پیدا ہوسکا لیکن ایسے مواقع سے کم ہی فائدہ اٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان میں شدت پسندی کے عوامل اور اسباب

انہوں نے کہا کہ ریاست اور حکومت کو انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شہریوں کو روزگار کے مساوی مواقع دینے چاہیے۔

سابق سیکیورٹی ایڈوائزرریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ دہشت گری کے خلاف جنگ کی نئے سرے سے وضاحت ضروری ہے اور اب معتدل حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی ختم کرنے کے لیے مذہب کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوام پر مبنی نقطہ نظر، مدرسہ اصلاحات اور ان کا نفاذ ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کے لیے ایک نیا فریم ورک تشکیل دینا ہوگا اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

سابق سفیر قاضی ہمایوں کا تقریب سےخطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مغربی ممالک طالبان حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس کا نتیجہ پاکستان میں دہشت گردی کی صورت میں برآمد ہوگا۔

مزید پڑھیں:مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کا تعلیمی میعار

تقریب میں موجود انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ کے سی وی ای سیکشن کی انچارج ڈی ایس پی زرینہ انجم کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ انتہاپسند رویوں کے خاتمے کے لیے انتہاپسندی کی مخالفت اور جوابی بیانیہ تشکیل دینے جیسے اہم اقدام کو ترجیح دینا ہوگی۔

ایک اور افسر ڈی ایس پی شفقت رشید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں قید دہشت گروں کے ذہنوں میں انتہاپسند سوچ کے خاتمے کے لیے ان کے اہلخانہ اور بچپن کے دوستوں کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیئر صحافی اور کالم نگار وسعت اللہ خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے۔

معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پرامن معاشی صورتحال کے لیے معاشرے میں دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔

صحافی اور سماجی کارکن وجاہت مسعود نے اپنےخطاب میں اقلیتوں کو حقوق فراہم کرنے پر زور دیا، انہوں نے کہا ملک میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک انتہاپسندی کو ہوا دیتا ہے۔

پروگرام کے تعارفی کلمات میں پی آئی پی ایس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے جوابی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا کہ محض مسلح جھڑپوں کی عدم موجودگی امن کی ضامن نہیں ہوسکتی۔

اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے کا منی لانڈرنگ، سائبر حملوں کے خلاف مؤثر تعاون کا عزم

طالبان نے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی شروع کردی

’آزاد عدلیہ اور پارلیمنٹ کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے‘