’افغان طالبان کی حمایت کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے‘
لاہور: پاکستان جتنی زیادہ افغان طالبان کی حمایت کرے گا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سمیت دیگر گروپس اتنے ہی مضبوط ہوتے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کی کابل حکومت کی حمایت افغان عوام کی کسی بھی طرح سے مدد نہیں ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ’افغانستان میں افراتفری اور کالعدم تنظیموں سے بات چیت" کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں منعقد مقررین نے خیالات کا اظہار کیا۔
مزیدپڑھیں: افغانستان: طالبان کا حکومت سنبھالنے کے بعد کابل سے باہر پہلا عوامی جلسہ
اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر اور حال ہی میں ٹی ایل پی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے نے سیشن میں ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
ناظم احمد رشید نے بحث کا آغاز اس خبر سے کیا کہ پاکستان نے کچھ افغانوں کو ویزے دینے سے انکار کر دیا ہے جنہیں کانفرنس میں بطور شرکا اور پینلسٹ مدعو کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں پینل میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی امن مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری، افغانستان کے سابق نائب وزیر عبداللہ خنجانی اور افغانستان کے طلوع نیوز کے ڈائریکٹر لطف اللہ نجفی زادہ شامل تھے۔
وہ کانفرنس میں شرکت کرسکے کیونکہ انہوں نے اگست میں سقوط کابل سے قبل ویزا حاصل کر لیا تھا۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، ایم این اے محسن داوڑ اور ثمینہ احمد (جنوبی ایشیا کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں سینئر ایشیا ایڈوائزر) بھی پینل میں شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم
افغانستان کے طلوع نیوز کے ڈائریکٹر اللہ نجفی زادہ نے حال ہی میں افغانستان میں رونما ہونے والے سیاسی منظر کو ’اجتماعی ناکامی‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اور دنیا کو ماضی کی حکومتوں کی ناکامی کے بجائے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ نجفی زادہ نے کہا کہ طالبان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ایسے افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں جو 2001 سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’چونکہ افغان اب زیادہ فعال ہیں، طالبان کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اختلاف رائے کا آرام کرنا چاہیے اور یہ کہ امریکا کے لیے نفرت افغانستان کو خوراک نہیں دے سکتی۔
وہ افغانوں کی صلاحیتوں کے بارے میں پر امید تھے اور کہا کہ یہ ملک امریکا کے بعد کے دور میں کسی بھی سمت جا سکتا ہے۔علاوہ ازیں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی امن مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری نے نے دوحہ امن مذاکرات میں خامیوں سے متعلق کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا سے متعلق واشنگٹن کی پالیسی میں خامی تھی، بات چیت محض ایک پی آرمشق تھی جہاں طالبان کا کسی سمجھوتے تک پہنچنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
مزیدپڑھیں: افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت جامع نہیں، یورپی یونین
انہوں نے کہا کہ اداروں کی تعمیر میں سابق صدر اشرف غنی حکومت کی ناکامی اور پاکستان کا زور پڑوسی ملک میں افغانوں کے مفادات کو پورا کرنے کی بجائے بھارتی پالیسیوں کو شکست دینے پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو ایک سیاسی نظام اپنانا چاہیے تاکہ وہ ’مین اسٹریم ورلڈ‘ کا حصہ بن سکے اور پاکستان کو کابل حکام پر ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
افغانستان کے سابق نائب وزیر عبداللہ خنجانی نے کہا کہ طالبان افغانوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دنیا پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ انہیں قبول کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بجائےانہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ افغانستان کے حکمران ہیں اور انہیں ترسیل پر توجہ دینی چاہیے۔علاوہ ازیں سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ طالبان اپنے کمانڈروں کو انعام دینا جانتے ہیں لیکن لوگوں کے لیے کام کرنا نہیں جانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان واحد ملک ہے جس میں کوئی قانون اور مناسب حکومتی نظام نہیں ہے اور وہ واحد ملک ہے جسے پاکستان کی جانب سے مغربی سرحدوں پر خاردار تاریں لگانے کے بعد باڑ والی جیل کہا جاتا ہے۔
مزیدپڑھیں: کابل میں خواتین کا احتجاج، طالبان کی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ
انہوں نے کہا کہ افغان پالیسی میں مسائل وزیراعظم کے علاوہ کوئی اور طے کر رہا ہے، اگر پاکستان ٹی ٹی پی کو شکست دینا چاہتا ہے تو افغان طالبان کی حمایت بند کرے۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اسی طرح ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی کا مشترکہ ایجنڈا ’سیاسی اسلام‘ تھا، جس نے انہیں اتحادی بنا دیا۔
ایم این اے محسن داوڑ نے افغان مدعو افراد کو ویزا دینے سے انکار کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان (قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر) متقی جیسے لوگوں کے لیے کھلا ہے لیکن حقیقی افغانوں کے لیے نہیں۔
محسن داوڑ نے کہا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے پچھلی افغان حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کیا وہ جلد اپنے فیصلے پر پچھتائیں گے۔