اسٹیٹ بینک کی متضاد پالیسیاں اور عوام
اسٹیٹ بینک کی بنیادی شرحِ سود کیا ہوگی؟ گزشتہ کئی ہفتوں سے سرمایہ کار اور کاروباری ادارے اسی تذبذب کا شکار تھے۔ بینکوں نے حکومت کو موجودہ شرحِ سود پر قرض دینے سے انکار کردیا تھا اور اسی ہفتے حکومت ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے قرض کے حصول میں ناکام رہی۔
اس عدم مستحکم صورتحال کو ختم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری یا زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 19 نومبر کو منعقد کرلیا، حالانکہ پہلے یہ اجلاس 26 نومبر کو ہونا تھا۔
اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرحِ سود میں ڈیڑھ فیصد (1.5) اضافہ یعنی بنیادی شرحِ سود کو 7.25 فیصد سے بڑھا کر 8.75 فیصد کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اس کی وجہ ملک میں مہنگائی اور ادائیگیوں کے توازن میں پیدا ہوتے خطرات تھے۔
یہ خطرات پیدا بھی کیوں نہ ہوں؟ دراصل اس وقت ایوانِ اقتدار میں بیٹھے افراد کی کوشش ہے کہ وہ ملک میں معاشی اور خصوصاً قیمتوں میں استحکام پیدا کرکے عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نجات دلائیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے جس فلاحی پیکج کا اعلان کیا وہ قوم سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت پر بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے وزیرِاعظم عمران خان نے اوگرا کی سفارش کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جبکہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس میں بھی کمی کردی ہے۔ مگر پاکستان میں نہ تو روپیہ کنٹرول ہورہا ہے اور نہ مہنگائی۔
ملک میں مہنگائی کی اہم وجہ جہاں عالمی سطح پر اشیا کا مہنگا ہونا ہے وہیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری بھی اس کو دگنا کررہی ہے اور یوں عوام کے لیے کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ دنوں نئے ناظم آباد میں ہسپتال کے سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب تھی جس میں وزیرِاعظم کے مشیرِ خزانہ شوکت ترین، اسٹیٹ بینک کی ڈپٹی گورنر سیما کامل کے علاوہ بینکوں کے صدور، زری اور سرمایہ کاری صنعت کے بڑے بڑے ناموں نے شرکت کی۔
ہمارا ٹیبل وی آئی پی ٹیبل کے قریب تھا سو وہاں سے جو چند جملے کانوں میں پڑے وہ معیشت، روپے کی قدر اور مہنگائی سے متعلق ہی تھے۔ شوکت ترین کی عادت ہے کہ وہ کبھی میڈیا سے بات چیت سے انکار نہیں کرتے۔ تقریب سے طویل خطاب کے باوجود انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا۔ معیشت کو درپیش مسائل پر صحافیوں نے مندرجہ ذیل سوالات کیے:
- (عالمی مالیاتی ادارے) آئی ایم ایف پروگرام کا کب تک حتمی اعلان ہوگا؟
- آئی ایم ایف نے کیا شرائط رکھی ہیں؟
- سعودی فنڈنگ کا اعلان تو ہوگیا، اب ڈالر کب تک منتقل ہوں گے؟
- سعودی عرب کتنے فیصد نفعے پر یہ فنڈز دے رہا ہے؟
مگر ترین صاحب سوالوں کے واضح جواب دینے سے گریزاں رہے۔ ایسے میں راقم نے ان سے روپے کی قدر میں سٹے بازی پر سوال داغ دیا کہ کیا وجہ ہے کہ خزانے میں کسی بڑی رقم کے آئے بغیر روپے کی قدر کم ہوتی اور پھر اوپر چڑھ جاتی ہے جبکہ معاشی اعداد و شمار میں کوئی بڑی گراوٹ یا بہتری نظر نہیں آرہی ہے؟
شوکت ترین نے اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں سٹے بازی ہورہی ہے اور ڈالر کو 164 سے 166 روپے کی سطح پر ہونا چاہیے۔ سٹے باز ایک بڑی رقم ڈالر پر لے جارہے ہیں۔ ڈالر کو کسی طور بھی 175روپے کی سطح پر نہیں ہونا چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ترین صاحب کو احساس ہوا کہ کہیں اس بیان سے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر ناراض نہ ہوجائیں اس لیے اسٹیٹ بینک کے کام میں عدم مداخلت کا بھی اعلان کردیا۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کے مطابق ’اس وقت پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے حقیقی شرح مبادلہ یا ریئل افکیٹو ایکسچینج ریٹ 164 روپے ہونا چاہیے مگر چونکہ سرمایہ کاروں کو آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی فنڈنگ کی واضح تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اس لیے فی الوقت وہ غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ جب تک ان دونوں اعلانات پر عمل نہیں ہوتا تب تک مارکیٹ میں عدم استحکام رہے گا‘۔
خرم شہزاد کا یہ بھی خیال ہے کہ ’اس معاملے میں اسٹیٹ بینک کو مداخلت کرنی چاہیے مگر وہ ایسا نہیں کررہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے صرف افغانستان جانے والے زرِمبادلہ کو کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈالر لے جانے کی حد مقرر کی ہے‘۔
روپے کی قدر میں سٹے بازی سے متعلق شوکت ترین کے بیان کے 5 روز بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے صدور کا اجلاس طلب کیا جس میں روپے کی قدر کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
اس اجلاس کے بعد بعض ذرائع ابلاغ نے یہ خبر چلائی کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں سٹے بازی کرنے والے بینکوں کے خلاف ڈنڈا اٹھا لیا ہے۔ تاہم اس اجلاس میں شریک بینک صدور نے اسٹیٹ بینک کے سخت اقدامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک روپے کی قدر میں سٹے بازی میں ہمیں ملوث نہیں سمجھتا۔ اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے مسلسل ہمارے زرِمبادلہ نظام کی نگرانی کررہے ہیں اور تاحال ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کی ٹریژری کو مزید محتاط رویہ اپنانے کی ہدایت کی۔
وزیرِاعظم کے مشیرِ تجارت عبدالزاق داؤد کے مطابق پاکستان کی بڑی درآمدات میں پیٹرولیم، گندم، چینی کے ساتھ اب کورونا ویکسین بھی شامل ہیں۔ پیٹرولیم اور کورونا ویکسین کی درآمد تو روکی نہیں جاسکتی تھی مگر حکومت چینی اور گندم کی درآمدات کے بجائے مقامی مارکیٹ کو کنٹرول کرکے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ بچاسکتی تھی اور تجارتی خسارے کو کم کرکے روپے کی قدر بھی بچائی جاسکتی تھی۔ مگر حکومت نے مقامی سطح پر اقدامات کرنے کے بجائے اجناس درآمد کیں اور تجارتی خسارے میں اضافہ کیا اور یوں مقامی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 40 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔
یہاں میں بحث کو تکینکی اور کاروباری پہلوؤں سے الگ کرتے ہوئے سماجی سمت میں موڑنا چاہوں گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی ہو یا زرِمبادلہ پالیسی، کیا ان سے عوام براہِ راست متاثر ہوتے ہیں یا پھر نہیں؟ کیا ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذمے 2 اہم اور بڑی پالیسیاں ہیں:
- اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی
- اسٹیٹ بینک کی زرِمبادلہ پالیسی
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی زرِمبادلہ پالیسی اور زری پالیسی ایک دوسرے کی متضاد ہیں۔ ان دونوں پالیسیوں میں ربط و ضبط نہ ہونے کی وجہ سے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔
ایک طرف اسٹیٹ بینک نے زرِمبادلہ پالیسی کے ذریعے روپے کی قدر کو مارکیٹ بیس کردیا ہے جس کی وجہ سے روپیہ موجودہ حکومت کے قیام سے لے کر اب تک ایک پینڈولم کی طرح جھول رہا ہے۔ روپے کی قدر میں اس قدر تیزی سے اُتار چڑھاؤ ہورہا ہے جس سے نہ تو کسی درآمد کنندہ نہ کسی برآمد کنندہ اور نہ ہی سرمایہ کاری کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ بقول شوکت ترین سٹے باز مزے میں ہے۔
اس پالیسی سے حکومت کے پاس ڈالر بھی نہیں بچ رہے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زرِمبادلہ ذخائر میں کمی ہورہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ اسی مہنگائی سے حکومت بھی پریشان ہے جس کے باعث حکومت نے وفاقی ادارہ شماریات کو مہنگائی کے ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کرنے سے روک دیا ہے۔
اب جب روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی اشیا مہنگی ہوتی ہے تو پاکستان میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی چینی اور آٹے جیسی دیگر اجناس کی قیمت کو ڈالر کے مساوی کرنے اور اپنے نفعے کو بڑھانے کے لیے ان کی قیمتیں بھی ڈالر کے مساوی کردی جاتی ہیں۔ اس طرح مہنگائی ہونے کے ساتھ ساتھ دولت ان لوگوں کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے جنہوں نے اجناس کے ذخائر رکھے ہوئے تھے، اور جو کمپنیاں ایسا نہیں کر پاتیں وہ پریس کلب میں میڈیا کو بڑے فخر سے یہ بتاتی ہیں کہ عالمی منڈی میں یوریا بیگ 7 ہزار روپے سے تجاوز کرگیا ہے جبکہ وہ 2 ہزار روپے سے کم میں فروخت کررہی ہیں جس کی بدولت کسانوں کو 500 ارب روپے کا فائدہ ہو رہا ہے۔
ایک طرف روپے کی قدر میں کمی سے ملک میں مہنگائی ہوتی ہے وہیں دوسری طرف مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسا کہ مشتاق یوسفی نے دف مارنے کا طریقہ کار بتایا ہے۔ یعنی پہلے مرچی والا کباب کھاؤ اور پھر اس کا دف مارنے کے لیے دوسری چیزیں کھاؤ یا پیو۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود بڑھائے جانے سے کاروبار مکمل طور پر مفلوج ہوکر کر رہ جاتا ہے اور جن کاروباری اداروں نے بینکوں سے قرض لیا ہوتا ہے، انہیں بڑھتی مہنگائی کے ساتھ بڑھتے سود کی ادائیگی بھی کرنی پڑجاتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر کاروبار کو پھیلانے کے بجائے سکیڑنا پڑتا ہے اور یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ جب کاروبار میں کمی ہوتی ہے تو مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کے لیے روزگار کے مواقع بھی گھٹ جاتے ہیں۔
Sustainable Development Policy انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے اسٹیٹ بینک کی زرِمبادلہ اور زری پالیسی کے عوام پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔
مقالے کے مطابق زری اور زرِمبادلہ پالیسی سے براہِ راست عوام کی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔ زری پالیسی اقتصادی و سماجی لحاظ سے قومی سطح پر غربت اور ترقی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تحقیق میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی موجودہ زری پالیسی معاشرے میں عدم مساوات اور غربت کو پیدا کرتی ہے۔ جب افراطِ زر میں اضافہ ہو تو زری پالیسی سخت کردی جاتی ہے جس کے باعث قیمتوں میں استحکام تو پیدا ہوتا ہے مگر بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین کا کہنا ہے کہ 'زری پالیسی کو صرف مہنگائی سے منسلک نہ کیا جائے بلکہ اس پالیسی کے ملازمت کی منڈی پر پڑنے والے اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے'۔
کورونا وبا سے قبل (جب بنیادی شرحِ سود 13.25 فیصد تھی) تب ایک روز ڈاکٹر قیصر بینگالی کو ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس دن انہوں نے بتایا کہ جب سے آن لائن ٹیکسی سروس شروع ہوئی ہے انہوں نے کار رکھنا چھوڑ دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ گزشتہ 10 دن میں انہیں 8 ایسے کیپٹنز (ڈرائیورز) ملے ہیں جو انجینئرز تھے۔ مگر حکومتی پالیسی کی وجہ سے ان کی فیکٹری بند ہونے پر وہ آن لائن ٹیکسی چلانے پر مجبور ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی اور شرحِ مبادلہ پالیسی دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف ملازمت پر موجود پاکستانیوں کی قوت خرید متاثر ہورہی ہے بلکہ اس سے بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کو اپنی پالیسیوں کے حوالے سے عوامی سطح پر جواہدہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ حکومت قانون سازی کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھے کہ کس طرح اسٹیٹ بینک کو حکومتی دباؤ سے آزاد رکھتے ہوئے عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جائے؟
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔