پی ٹی آئی کے 23 اراکین اسمبلی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، رانا ثنااللہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ نے کہا ہے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 23 اراکین مشترکہ اجلاس سے قبل ہمارے ساتھ رابطے میں تھے لیکن حکومت نے اسٹبلشمنٹ کے ذریعے ان کا انتظام کیا۔
پارلیمنٹ ہاوس میں ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ایوان کے مشترکہ اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کے 23 پارلیمنٹرینز رابطے میں تھے لیکن حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ان اراکین پر دباو ڈال کر سب مینج کیا۔
مزید پڑھیں: پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ
انہوں نے کہا کہ دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی کے 8 اراکین ہماری طرف آنے کو تیار تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین نے خود ہمارے ساتھ رابطہ کیا اور وہ اراکین آج بھی رابطے میں ہیں۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ 8 اراکین کے ہمارے طرف آنے سے معاملہ بنتا نہیں تھا اس لیے انہیں سامنے نہیں لائے لیکن حکومت نے ان اراکین کو بھی شمار کرنے کے لیے ایوان میں غلط گنتی کرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس کے دوران پہلی لائن میں 13 ممبران تھے، جب پیچھے گنتی ہوئی تو آگے سے 3 اراکین چھٹی لائن میں شامل ہوگئے اور یوں حکومت نے مشترکہ اجلاس میں تقریبا 10 اراکین زیادہ شمار کیے۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ اجلاس کے موقع پر ایوان میں حکومتی اراکین کی تعداد 210 سے 212 تک تھی جبکہ اپوزیشن اراکین کی تعداد 204 تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل نوٹیفائی اجلاس ملتوی کرانا بھی اسی معاملے کی ایک کڑی تھی، اتحادیوں سمیت 62 اراکین مشترکہ اجلاس میں غیر حاضر ہونا تھے، اور ان62 اراکین میں سے 26 پی ٹی آئی کے اپنے تھے اور اسی پر گزشتہ ہفتے اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کی اتحادی جماعتوں کو گردن پر بوٹ رکھ کر مجبور کیا جا رہا ہے، فضل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اپنے اراکین کسی صورت اجلاس میں آنے کو تیار نہیں تھے اور وہ اراکین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنا چاہتے تھے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مذکورہ اراکین اسمبلی نے ہم سے خود رابطہ کیا تھا اور پی ٹی آئی کے وہ اراکین اس وقت بھی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ 17 نومبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2021 سمیت دیگر بلز اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے تھے۔
انتخابی اصلاحات کی تحریک کے حق میں 221 جبکہ مخالفت میں 203 ووٹ آئے تھے۔
ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے اعتراض اٹھایا تھا جس پر اسپیکر نے دوبارہ گنتی کرنے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم گنتی کے دوران ایوان میں شدید بےنظمی پیدا ہوگئی اور اپوزیشن اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور حکومت و وزیر اعظم کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کا حکومتی قانون سازی عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
ایوان میں گرما گرمی کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا جبکہ اپوزیشن اراکین نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔
انتخابی اصلاحات بل کے تحت 2017 کے الیکشن ایکٹ میں دو ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو کہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق ہیں۔
بل منظور ہونے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی ارکان پارلیمنٹ نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا جبکہ اپوزیشن نے اس کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
بعد ازاں اپوزیشن کی جانب سے بل کو عدالت سمیت ہر فورم پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔