پاکستان

ریاست شریعت کے مطابق قانون سازی سے کیوں ہچکچا رہی ہے، وفاقی شرعی عدالت

بلاسودبینکاری پر کتنا کام ہوا، تفصیلات کہاں ہیں، عدالت نے گزشتہ15سال کے اقدامات کی تفصیلات مانگی تھیں، جسٹس محمد انور کا استفسار
|

وفاقی شرعی عدالت نے بلاسود بینکاری سے متعلق درخواست پر حکومتی اقدامات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست شریعت کے مطابق قانون سازی سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نور محمد مسکان زئی کی سربراہی میں سود کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد انور نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے استفسار کیا کہ بلاسود بینکاری پر کتنا کام ہوا ہے اور تفصیلات کہاں ہیں، عدالت نے گزشتہ 15 سال کے اقدامات کی تفصیلات مانگی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں، وفاقی شرعی عدالت

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک سے تفصیلات نہیں ملیں، جلد ہی عدالت کو آگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نور محمد مسکان زئی نے سوال اٹھایا کہ شریعت کورٹ نے 2001 میں سود سے پاک مالیاتی نظام بنانے کا حکم دیا تھا، عدالت نے پارلیمان کو قانون سازی کے لیے ہدایات بھی دی تھیں، عدالت پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں کر سکتی کہ کیا قانون بنایا جائے، قانون کیسے بنانا ہے یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی شریعت کے مطابق کرے، جس پر جسٹس سید محمد انور نے سوال کیا ریاست شریعت کے مطابق قانون سازی سے کیوں ہچکچا رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ صرف ذمہ داری پوری کرنے کے طریقہ کار کا ہے۔

جسٹس محمد انور نے کہا کہ اسٹیٹ بینک تاخیری حربے کیوں استعمال کر رہا ہے، اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ربا کو غیر قانونی قرار دینے کا اختیار عدالت نہیں حکومت کا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے تمام دلائل کسی شرعی ریفرنس کے بغیر ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا اسلامی فقہ کا ماہر نہیں ہوں، آئینی نکات پر دلائل دوں گا،۔

اس موقع پر عدالتی معاون ڈاکٹر بابر عوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قانون شرعی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف شریعت کورٹ لے سکتی ہے، شرح سود سے متعلق ہر روز ٹی وی پر خبریں چلتی ہیں، ربا ہمارے مالیاتی نظام میں موجود ہے۔

مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت نے ’سوارہ‘ کو غیر اسلامی قرار دے دیا

بابر اعوان کا کہنا تھا حقائق سے نظر چرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، شریعت کورٹ کے علاوہ کوئی عدالت اس کیس کو نہیں سن سکتی، اٹھارھویں ترمیم میں بھی عدالت نے جوڈیشل کمیشن کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ وہ عدالتی آبزرویشن پر قانون بناتی ہے یا نہیں جبکہ شریعت کورٹ قوانین کو کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔

عدالتی معاون نے بتایا کہ شریعت کورٹ صرف اپنی رائے دے سکتی ہے جس کی حکومت پابند ہوگی۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بابر اعوان عدالتی دائرہ اختیار کو تسلیم کر رہے ہیں یا نہیں، جس پر چیف جسٹس شریعت کورٹ نے قرار دیا کہ سمجھ میں ہمیں بھی نہیں آیا، دلائل مکمل ہونے پر شاید واضح ہوجائے۔

درخواست گزار اقبال ہاشمی نے کہا کہ مناسب ہوگا عدالت گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کرے، جس پر عدالت نے کہا کہ وکلا کے دلائل مکمل ہو جائیں پھر دیکھیں گے کس کو بلانا ہے اور کس کو نہیں بلانا۔

جسٹس سید محمد انور نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم مقدمہ سننے کا اختیار رکھتے ہیں یا نہیں، سوال صرف پارلیمنٹ کو دی گئی ہدایت اور اس پر عملدرآمد کا ہے۔

عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی اور عدالتی معاون بابر اعوان اپنے دلائل کل بھی جاری رکھیں گے۔

خیال رہے کہ شریعت کورٹ نے 2001 میں سود سے پاک نظام بنانے کی ہدایت کی تھی جبکہ سپریم کورٹ شریعت ایپلیٹ بینچ نے مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا۔

اپوزیشن کا حکومتی قانون سازی عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان

یورپی گلوکار ’ایکسنٹ‘ کی پہلی بار جامشورو اور لاہور میں پرفارمنس

ہر اینڈرائیڈ فون سے بالکل مختلف نیا اسمارٹ فون