پاکستان

نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے، مریم نواز

مجھے اور نواز شریف کو اللہ کی ذات پر یقین تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دن جلدی آئے گا، نائب صدر مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف کا بیان حلفی نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی ہے جو عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ’مجھے اور نواز شریف کو اللہ کی ذات پر یقین تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دن جلدی آئے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہی جعلی حکومت و عدالتیں اور وہی طاقت کا غلط کا استعمال ہے لیکن یہ قدرت کا نظام ہے کہ نواز شریف کے حق میں تیسری بڑی گواہی عدلیہ کی طرف سے سامنے آئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیر اعظم کو جس نے سزا دی ارشد ملک صاحب مرحوم انہوں نے نواز شریف کے حق میں اپنی زندگی میں گواہی دی، اس کے علاوہ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے بھی دوران ملازمت نواز شریف کے حق میں گواہی دی‘۔

مریم نواز نے کہا کہ ’وہ شخص جو آج پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنا ہے اس کے پاس اپنے حق میں کہنے کے لیے کچھ نہیں اس نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ نہ بیٹھنا نہ اس کے لیے گواہی دینا‘۔

مزید پڑھیں: سلیکٹرز آئندہ پاکستان کے ساتھ ایسا کام نہ کرو، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ ’اب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کی گواہی سامنے آگئی ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ان کے سامنے فون پر یہ ہدایت دی کہ نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن سے پہلے ضمانت نہیں دیں‘۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ جب ان سے پوچھا کیا کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں کہ تو انہوں نے کہا کہ پنجاب اور گلگت بلتستان کی عدالتوں میں فرق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کو نواز شریف سے متعلق گواہی پر انصاف دینے کے بجائے نوکری سے فارغ کردیا گیا اور مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے گئے، جس ملک میں منصف کو استعمال نہ ملے تو ہمیں انصاف کی فراہمی تو بہت مشکل ہے۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس کے بعد ارشد ملک کی شہادت موصول ہوئی تو ان پر کارروائی کی جاتی یا تحقیقات کی جاتی تو آپ نے اس معاملے کو ختم کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی

انہوں نے کہا کہ ایک ملک کے وزیر اعظم کو جعلی سزا دینے کے لیے آپ نے جج کو نوکری سے برخاست کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے جو انکشافات کیے ہیں اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا ہے، حالانکہ آپ کو انہیں سننا چاہیے تھا، سب سے پہلا نوٹس اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو جانا چاہیے تھا۔

مریم نواز نے کہا کہ ثاقب نثار صاحب کا یہ کہنا کہ مجھے کیا ضرورت پڑی کہ میں عدالتوں کے چکر لگاؤں، یہ آپ کی جانب سے زیادتی کی گئی ہے، جب ہم پانچ سال سے عدالتوں کے چکر لگا سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں لگا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کا معیار دیکھیں کہ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی عدالت کو اس بنیاد پر اوورٹرن کردیا جاتا ہے کہ اس خصوصی عدالت کی منظوری کابینہ نے نہیں دی، لیکن نواز شریف کے فیصلے میں تین ججوں نے گواہی دی لیکن انہیں جعلی سزا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ طاقت کے زور پر جیت جائیں گے تو یہ سب کے سامنے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگرنواز شریف جیل جاسکتا ہے، تو ثاقب نثار کیوں نہیں جاسکتا، سابق وزیراعظم

لیگی نائب صدر نے کہا کہ جو صورتحال ہے اس کا ایک ہی حل ہے کہ اگر اس ملک کو ان مشکلات سے نکالنا ہے، جس میں اسے عمران خان دھکیل چکے ہیں، تو اس کا حل آزاد اور شفاف انتخابات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ بیٹھوں گی اور معاملات پر تبادلہ خیال ہوگا اور آج نیب نے خود ہی آج وقت مانگ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی اتنی ہی زندگی ہے اور اب وہ ختم ہوچکی ہے، ان کی وجہ سے پاکستان کے عوام پر مشکلات آئیں، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر منٹ میں مہنگائی بڑھتی ہے اور اب لوگوں کو گیس بھی دن میں تین بار دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ مستند ہیں اور ان پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، نوٹری پبلک ہی وہ ادارہ ہے جہاں سے حکومت پاکستان سے اپنی دستاویزات تصدیق کرواتی ہے، میری تمام تر دستاویزات نوٹرائزڈ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ صرف ہماری یا آپ کی بحالی کی تحریک نہیں تھی وہ عدل کی بحالی کی تحریک تھی جسے ایک آمر نے قلم کی نوک کے زور پر ردی میں دھکیل دیا۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ توہین عدالت اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص جس نام لینا میں پسند نہیں کرتی اس نے یہ کہا جس نے گواہی دی ہے اس جوتے مارنے چاہئیں، اس سے بڑی توہین عدالت کو نہیں ہوگی۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ آپ عدالت میں آنے والے کو قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر سچ بولنے کی ترغیب دیتے ہیں اور آپ خود جھوٹ بولتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شخص اب سامنے آئے گا نہ ہی کسی بات کا جوابدے گا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پی کے ایل آئی جیسا ادارہ بنایا تاکہ لوگ جگر جیسے امراض کے لیے بھارت جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں علاج کرواسکیں ثاقب نثار نےا پنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے وہ ادارہ بند کردیا۔

حکومتی اتحادیوں سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو حکومت بھیک پر چل رہی ہو اس کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔

ایون فیلڈ مقدمے کی سماعت

اس سے قبل ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے مقدمے کی سماعت کے موقع پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ وہ دلائل مکمل کریں اور ثبوتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کریں کہ وہ اپارٹمنٹ کی بینیفیشل اونر ہیں۔

اس پر نیب پواسیکیوٹر نے احتساب بیورو کی جانب سے باضابطہ جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت طلب کر لیا۔

دوران سماعت نیب پراسیکیورٹر نے مؤقف اپنایا کہ مریم نواز ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کی بینیفیشل اونر ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ملکیت چھپانے میں اپنے والد نواز شریف کی مدد کی، اس جائیداد کی خریداری کے لیے استعمال کیے گئے مالیاتی ذرائع کے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے اس پر سوال کیا کہ اگر خریدار ذرائع نہ بتائے تو بیٹی پر جرم کیسے ثابت ہو گا؟ کیا اس حقیقت سے جرم سے پہلوتہی یا معاونت ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب نے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دائر کردی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ ایک رائے ہے، ٹرائل ایک الگ چیز ہے، ٹرائل ہونا ہے اور اس میں پراسیکیوشن نے ہر چیز بتانی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ نیب کا ماننا ہے کہ مریم بینیفیشل اونر ہیں جبکہ مریم کا کہنا ہے کہ وہ ٹرسٹی ہیں، اب نیب کو ثبوتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کرنی ہے۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت 24نومبر تک ملتوی کردی۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ سزائیں 2018 کے عام انتخابات سے صرف 19 دن قبل سنائی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ کیس کا جرمانہ وصول کرنے کیلئے نیب کا نواز شریف کے اثاثے فروخت کرنے کا حکم

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔

یاد رہے کہ 6 اکتوبر 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست سے اعتراضات ختم کرکے سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔

بھارت کا کرتارپور راہداری کھولنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، شاہ محمود قریشی

بھارت میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روکنے، مساجد پر حملوں کی مذمت

شادی بچانے کے لیے تشدد و تضحیک برداشت کرتی رہی، متھیرا