ریڈ بل اور شریعت کا نفاذ
کہتے ہیں کہ ایک بازار میں عجیب سے حلیے والا ایک لڑکا خالی بوری لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرتا پھرتا رہتا تھا۔ وہ جہاں کسی دکان پہ اناج رکھا دیکھتا وہاں سے اناج کے ایک دو ٹوپے بھر کے اپنی بوری میں ڈالتا اور پھر بکتا جھکتا آگے چل پڑتا۔ لوگ عام طور پر اسے پاگل سمجھ کر کچھ نہیں کہتے تھے۔ دن بھر بازار میں پھرنے اور اناج سے بوری بھرنے کے بعد وہ قریب ہی ایک خدا ترس آدمی کے گھر پہنچ جاتا تھا جن کے بقول انہوں نے اسے اللہ واسطے پناہ دے رکھی تھی۔
اگلے دن صبح ہوتی تو وہ پھر خالی بوری لیے بازار میں گھومنا شروع کر دیتا۔
ایک دن ایک دکان پہ اس نے اپنی معمول کی حرکت دہرائی تو دکان دار نے اسے پیٹنا شروع کر دیا۔ اسے پٹتا دیکھ کے اسے پناہ دینے والے بزرگ بھاگم بھاگ دکان پر پہنچے اور اسے چھڑاتے ہوئے دکاندار سے کہنے لگے کے اس بچارے کو مت مارو یہ پاگل ہے۔
دکاندار نے کہا کہ میں اسے کئی دن سے بازار میں دیکھ رہا ہوں اور یہ ہر روز یہی حرکت کرتا گھومتا رہتا ہے۔ اگر واقعی یہ پاگل ہے تو کسی دن اپنی بوری میں سے اناج نکال کے میری بوری میں کیوں نہیں ڈالتا؟ ان بزرگ نے جو اس لڑکے کی جان بچانے آئے تھے فرمایا کہ یہ پاگل ضرور ہے بیوقوف نہیں کہ اپنی بوری سے اناج نکال کے دوسروں کی بوری میں ڈالتا پھرے۔
میں نے جب سے حافظ آباد سے حسب توفیق مسلح ہو کے اسلام آباد آنے، گاڑی کرائے پہ لے کے اس کی ڈکی کو منرل واٹر کی بوتلوں اور ریڈ بل کے کین سے بھرنے اور پھر مری کی سیر سے واپسی پہ بلیو ایریا میں نفاذ شریعت کا مطالبہ اور اس کے لیے مذاکرات کرنے والے دبئی پلٹ مجاہد کے بارے میں یہ سنا ہے کہ وہ پاگل تھا، تب سے مجھے لگ رہا ہے کہ اسے پاگل کہنے والے ہمیں ضرور بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔
سکندر جسے کچھ عرصے بعد شاید فاتح بلیو ایریا کے طور پر جانا جائے گا کیونکہ اگر وہ پاکستانی عوام کی طرح بےوقوف ہوتا تو اس کی گاڑی کی ڈگی انرجی ڈرنکس سے بھری ہوئی نا ہوتی، اس کے پاس دو دو خودکار بندوقیں نہ ہوتیں اور اس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ دو ایسے معصوم چہرے نہ ہوتے جنہیں دیکھ کے اس کی طرف اٹھنے والی بندوقوں کے سر کئی گھنٹے تک جھکنے پر مجبور رہے۔
اگر سکندر اس لڑکے کی طرح پاگل نہ ہوتا تو شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے کا نیک کام ریڈ زون کی بغل میں بلیو ایریا کے ساتھ تمام ٹی وی چینلز کے دفتروں کے بیچ شروع کرنے کے بجائے حافظ آباد کے قاضی محلے کی کسی چھوٹی سی گلی سے بھی شروع کیا جا سکتا تھا۔
ہم جس بازار میں رہتے ہیں اس میں سکندر جیسے پاگل بھی بہت ہیں اور ان پاگلوں کو پناہ دینے والے بزرگان بھی۔ کمی یہاں نہ ان بے وقوفوں کی ہے جو ان بزرگوں کی پناہ میں رہنے والے پاگلوں کی بوری میں جنت کمانے کے چکر میں مٹھی دو مٹھی اناج روز ڈالتے ہیں اور نہ ان سیانوں کی جو ریٹنگ کے ایک یا دو ٹوپے نکالنے کے چکرمیں سکندر کا بازار میں گشت اور پٹائی دونوں براہ راست پیش کرتے ہیں۔
میں نے جب سے خودکار ہتھیاروں سے لیس پاگل سکندر اور اس کی دیوانی کنول کو دو بچوں کی انسانی ڈھال کے پیچھے سے چاروں طرف سے پولیس کے گھیرے میں محصور ہونے کے باوجود ٹی وی کے نمائندوں سے براہ راست رابطے میں، گھنٹوں کا ائیر ٹائم لیتے، کبھی شریعت کا مطالبہ کرتے، کبھی مذاکرات کی خواہش ظاہر کرتے، کبھی دھمکیاں دیتے کبھی گولیاں چلاتے، کبھی سگریٹ سلگاتے اور کبھی ریڈ بل کے گھونٹ بھرتے دیکھا ہے، مجھے کچھ سال پہلے کا ایک منظر یاد آ رہا ہے۔
اب سے کچھ سال پہلے بلیو ایریا اور ریڈ زون سے کچھ دور کئی سکندر اسی سکندر سے ملتی جلتی بوریوں اور اس کے مطالبات جیسے مطالبات کے ساتھ، یونہی عورتوں بچوں کی ڈھال بنائے بندوقیں تھامے، دھمکیاں دیتے، گولیاں چلاتے نظر آئے تھے۔ ایک آدھ انہیں پناہ دینے والے بزرگ بھی ساتھ تھے جو یونہی میڈیا کے سیانوں سے گھنٹوں ائیر ٹائم لیا کرتے تھے۔
اب میرے ذہن میں اس دکاندار کی طرح ایک معصوم سا سوال ہے اور مجھ بے وقوف کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ میں اپنے سوال کا جواب کسی بزرگ سے لوں یا کسی سیانے سے۔ سوال یہ کہ اگر سکندر پاگل ہے تو کیا لال مسجد سے آنے والے کیا تھے؟
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔