چین نامہ: جب ہم نے چین میں شیشے کے پُل کی سیر کی (چودھویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
جنوبی کوریا کی مشہور ڈراما سیریز اسکوئڈ گیم میں ایک جگہ کھلاڑیوں کو شیشے سے بنا ہوا ایک ایسا خطرناک پُل پار کرنا تھا جس کے کچھ پینل نارمل گلاس کے اور کچھ پینل ٹیمپرڈ گلاس کے بنے ہوئے تھے۔ مگر انہیں صرف ٹیمپرڈ گلاس والے پینلز پر چھلانگ لگاتے ہوئے وہ پُل پار کرنا تھا۔ اب کون سا پینل ٹیمپرڈ گلاس سے بنا ہوا ہے یہ ہر کھلاڑی کو اپنی سمجھ بوجھ اور قسمت کے سہارے معلوم کرنا تھا۔
انہیں وہ خطرناک کھیل کھیلتے ہوئے دیکھ کر ہمیں یاد آیا کہ ہم بھی چین میں 2 دفعہ یہی تجربہ کرچکے ہیں۔ فرق بس اتنا تھا کہ وہ کھلاڑی وہاں ایک خطرناک کھیل کھیلنے کے لیے لائے گئے تھے جبکہ ہم اپنی مرضی سے صرف ایڈونچر کی خاطر وہاں گئے تھے۔
انسان عموماً ایسے ایڈونچر اپنے دوستوں کے ساتھ کرتا ہے۔ ہم نے بھی پہلی دفعہ یہ کارنامہ اپنے کچھ عزیز دوستوں کے ساتھ ہی سر انجام دیا تھا تاہم دوسری مرتبہ ہمارے والدین ہمیں وہاں زبردستی لے کر گئے تھے۔
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ چین میں ایڈونچر کے شوقین افراد کے لیے ڈھائی ہزار سے زائد مقامات پر شیشے کے پُل بنائے گئے ہیں۔ یہ پُل سیاحوں میں کافی مقبول ہیں اور روزانہ لاکھوں افراد ان کی سیر کو جاتے ہیں۔
ویسے تو یہ پُل کافی مضبوط ہیں لیکن ان پر ماضی میں کچھ خطرناک حادثات پیش آچکے ہیں۔ 5 ماہ قبل چین کے ایک شہر لونگ جنگ کے پِیان نامی پہاڑ پر واقع شیشے کے پُل پر بھی ایک خطرناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس پُل کے کچھ پینل اچانک چلنے والی تیز ہوا کی زد میں آکر اس وقت ٹوٹ گئے تھے جب اس پُل پر ایک چینی آدمی موجود تھا۔ وہ آدمی کئی گھنٹوں تک اپنے پینل پر پُل کے ساتھ چپکا رہا جسے بعدازاں فائر فائٹرز، پولیس اور محکمہ جنگلات کے افسران کی مدد سے وہاں سے نکالا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2017ء اور 2019ء میں 2 مختلف پُلوں پر ہونے والے حادثات کے سبب 2 افراد کی جان بھی چلی گئی تھی۔
ہم پہلی بار جب بیجنگ کے قریب ایک پہاڑ پر بنے شیشے کے پُل کی سیر کے لیے گئے تھے تب ہمیں ان واقعات کا نہیں پتا تھا۔ ہمارا سوڈانی دوست اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ اس پُل سے ہوکر آیا تھا۔ ہم نے اس کی تصاویر دیکھیں تو پُل پر جانے کے لیے پُرجوش ہوگئے۔ اس سے شکوہ بھی کردیا کہ اس نے جانے سے پہلے ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ اس نے ہمیں اگلے ہی ویک اینڈ اس پُل پر لے جانے کا وعدہ کرلیا۔ ہم نے اپنے 3 اور دوستوں کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے دی۔
مقررہ دن کو ہم ایک ٹؤر کمپنی کے توسط سے اس پہاڑ پر پہنچے جس پر وہ پُل بنا ہوا تھا۔ پھر جو جس کا نام لیوا تھا، اس کا نام لیتے ہوئے پہاڑ چڑھنے لگا۔ راستے میں ایک بنگالی جوڑا ملا۔ ان کے ساتھ ان کا 3 سالہ صحت مند بچہ بھی تھا۔ ہم میں سے کچھ نے غلطی سے اس کے گال چھو لیے، پھر کیا تھا والدین نے بچہ ہمیں ہی پکڑا دیا اور خود ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مزے سے آگے نکل گئے۔
ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہ گئے۔ بچے کو چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے اور اس کے والدین کو 'اپنا بچہ خود سنبھالو!' کہتے ہوئے بھی جھجھک رہے تھے۔ مجبوراً سب نے باریاں لگائیں اور جیسے تیسے اپنی اپنی باری پر بچے کو اٹھاتے ہوئے پہاڑ چڑھتے ہوئے پُل تک پہنچے۔ درمیان میں ہمارا ایک دوست اس جوڑے کو دیکھتے ہوئے ہم سب کو چھیڑتا رہا کہ دیکھو وہ خود کتنے مزے سے گپیں لگاتے ہوئے جا رہے ہیں۔
اوپر پہنچنے پر ہم نے سب سے پہلے اس جوڑے کو ان کا بچہ پکڑایا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے ہم سب نے اپنے اپنے کان لپیٹے اور آگے بڑھ گئے۔ پُل سے پہلے ایک ٹکٹ کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ 20 یوآن کی ٹکٹ تھی۔ ٹکٹ خریدنے کے بعد ہمیں اپنے جوتوں پر چڑھانے کے لیے کپڑے سے بنے ہوئے کور دیے گئے۔
جوتوں پر کور چڑھا کر ہم آگے بڑھے تو ہمیں وہ پُل نظر آیا جس کی خاطر ہم اس دن صبح سویرے جاگے تھے اور ایک پہاڑ چڑھ کر وہاں تک پہنچے تھے۔ اس وقت ہمارے اندر خوف و ڈر کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ہم اس گھڑی کو کوسنے لگے جب ہم نے پُرجوش ہوکر وہاں آنے کی ضد کی تھی۔ ہمیں ڈرتا ہوا دیکھ کر ہمارا سوڈانی دوست ہی آگے بڑھا۔ اس نے کہا دیکھو موت برحق ہے۔ ڈر ڈر کر کیا جینا۔ اگر تمہاری موت یہیں لکھی ہے تو یہیں آئے گی۔ ڈرو مت اور آجاؤ۔ ہم نے اسے شکوہ بھری نگاہوں سے دیکھا اور کہا ہم موت سے نہیں ڈرتے، مگر ہاں ایسی موت سے ضرور ڈرتے ہیں۔
پھر ہم نے سوچا کہ ہم اتنے شوق سے یہاں اسی پُل پر چلنے کے لیے آئے تھے۔ اب ڈر کا کیا فائدہ؟ بس آنکھیں بند کیں اور قدم آگے بڑھا دیے۔ کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں تو ہم پُل پر موجود تھے۔ نیچے دیکھا تو شیشے کی موٹی تہہ کے پار کھائی دکھائی دی۔ ہم نے فوراً اپنی نظریں گھما کر سامنے موجود لوگوں پر جما لیں جو ہنستے مسکراتے ہوئے مختلف انداز میں اپنی تصاویر لے رہے تھے۔ ہم نے بھی جلدی جلدی اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ تصاویر بنوائیں اور پُل پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔
وہاں ایک طرف شیشے سے بنا ہوا پلیٹ فارم موجود تھا۔ پُل عبور کرنے کے بعد سب وہیں جا رہے تھے۔ ہم لوگ بھی وہیں چلے گئے۔ تب تک ہمارا ڈر بھی کسی حد تک کم ہوچکا تھا۔ وہاں ہم نے پھر سے بہت سی تصاویر لیں اور اللہ کا بھی خوب ذکر کیا۔
گھر واپس آکر ہم نے وہ تصاویر اپنے گھر بھیجیں تو وہ ایسے خوش ہوئے جیسے ہم نے اپنی ڈگری مکمل کرلی ہو۔ اگلے سال ہمارے والدین چین آئے تو ان کی خصوصی فرمائش پر ہم انہیں اس پُل کی سیر کروانے لے گئے۔ اگرچہ ہم نے ان کے ٹرپ کی جو منصوبہ بندی کی ہوئی تھی اس میں اس پُل کی سیر شامل نہیں تھی۔ ہم ایک ذمہ دار بیٹی کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں صرف ایسے مقامات پر لے کر جا رہے تھے جہاں انہیں زیادہ جسمانی مشقت نہ کرنی پڑے اور جو ان کے لیے محفوظ بھی ہوں۔
انہوں نے کچھ دن تو ہمارے شیڈول پر عمل کیا، مگر پھر پوچھا کہ اس پُل پر کب جانا ہے۔ ہم نے پوچھا کس پُل پر؟ انہوں نے کہا شیشے کے پُل پر۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا آپ وہاں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا اسی لیے تو چین آئے ہیں۔ مجبوراً ہمیں ان کے لیے ٹؤر بُک کروانا پڑا۔
اس ٹرپ پر ان کا دھیان رکھنے کے لیے ہمارا سوڈانی دوست بھی ہمارے ساتھ چلا تھا۔ اس دفعہ ہم کیبل کار کے ذریعے پہاڑ پر اس پوائنٹ پر گئے تھے جہاں پُل موجود تھا۔ وہ کیبل کار پُل سے تھوڑا اوپر تک جاتی ہے۔ ہم سب کو پھر تھوڑا سا نیچے اتر کر پُل تک آنا پڑا۔
اس ٹرپ پر اپنے والدین کا پُرجوش رویہ دیکھ کر ہم حیران ہو رہے تھے۔ اتنا خوش تو وہ دیوارِ چین جاکر بھی نہیں ہوئے تھے جتنا اس پُل پر آکر ہو رہے تھے۔ انہوں نے کئی بار پُل ایک طرف سے دوسری طرف پار کیا پھر جیسے وہ بچپن میں ہمیں زبردستی پارک سے گھر واپس لاتے تھے، ٹھیک ویسے ہی ہمیں انہیں اس پُل سے گھر واپس لانا پڑا۔
شاید ہمیں دوبارہ چین بھیجنے کے پیچھے ان کی دوبارہ اس پُل پر جانے کی خواہش کار فرما تھی۔ کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے وہ خواہش اب تک ادھوری ہے۔ مستقبل قریب میں چین نے اپنی سرحدیں سیاحوں کے لیے کھولیں تو ہم ان کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
تحریم عظیم چین کے دارالحکومت بیجنگ میں موجود کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔