حکومت کی کارکردگی، عدم مشاورت پر اتحادیوں کا تحفظات کا اظہار
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی پالیسیوں پر اتحادیوں کے ’کمزور پڑتے‘ اعتماد اور اپوزیشن کی جانب سے مرحلہ وار حکومت گرانے کی دھمکی کے دوران حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ہفتے میں تیسری ملاقات کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کی زیرِ صدارت جمعہ کو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سندھ اور بلوچستان کے گورنرز، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اس سے قبل وہ جمعرات اور پیر کو پارٹی رہنماؤں اور اتحادی جماعتوں سے ملاقات کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ساری اپوزیشن تھکے ہوئے پہلوانوں پر مشتمل ہے،فواد چوہدری
ملاقات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی جماعتوں نے بھی وزیر اعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے 2 مرکزی اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اہم معاملات پر اتحادیوں کے ساتھ مشاورت نہ کرنے اور حکومت کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا۔
اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں حکومتی اتحادیوں کے بدلتے ہوئے رویے پر بھی بات چیت ہوئی اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
اتحادیوں کے تحفظات
ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے ایک ٹی وی شو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا حکومت پر اعتماد بکھر چکا ہے کیونکہ ایم کیو ایم، حکومت کو درست سمت میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ رہی۔
مزید پڑھیں: بلاول کی فضل الرحمٰن سے ملاقات، حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا عزم
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم حکمران پی ٹی آئی کی بری حکمرانی (گورننس) کی ذمہ داری نہیں بانٹ سکتی کیونکہ اہم قومی معاملات پر انہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایم) کے استعمال سے متعلق متنازع قانون سازی پر ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اہم قانون سازی پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور آخری وقت پر ہمیں دستاویزات تھما دی گئیں، ہم کس طرح اس قسم کی قانون سازیوں کی حمایت کرسکتے ہیں‘۔
خالد مقبول صدیقی نے حکومت سے علیحدگی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ (حکومت) اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیتی تو ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کبھی بھی ناقص معاشی پالیسیوں کی حمایت نہیں کر سکتی جس سے ملک میں بے مثال مہنگائی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اتحادی جماعتوں اور کابینہ اجلاس میں ٹی ایل پی کے معاملے پر بات نہیں ہوئی، فواد چوہدری
دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری اطلاعات کامل علی آغا نے بھی اپنی جماعت کی جانب سے اسی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر اعظم نے اہم فیصلہ سازیوں میں مسلم لیگ (ق) سے مشاورت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً بجٹ منظور کرانے کے لیے تو وہ ہم سے بات کرتی ہے ورنہ نہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے اپنے طریقے نہ سدھارے تو ہمیں حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
تحریک عدم اعتماد
دوسری جانب اپوزیشن، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی یا اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا سوچ رہی ہے تاکہ پارلیمان میں حکومت کی موجودہ طاقت کا اندازہ لگایا جاسکے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر نے ڈان نیوز کے پروگرام میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد جلد پیش کردی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک کامیاب ہوئی تو وزیر اعظم کے خلاف بھی ایسی ہی تحریک پیش کی جاسکتی ہے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ’چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف 2 ماہ میں تحریک پیش کی جاسکتی ہے‘۔