’ٹک ٹاک کے ایک فیصد قابل اعتراض مواد پر 99 فیصد مواد کس طرح بند کیا جاسکتا ہے‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا قواعد اور ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی کے خلاف درخواست پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے 22 نومبر تک جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیسز کو یکجا کر کے سماعت کی جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نئے سوشل میڈیا رولز بنا لیے گئے ہیں۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ سوشل میڈیا رولز میں ترمیم کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اگر ٹک ٹاک بند کرنا ہی واحد راستہ ہے تو پھر گوگل بھی بند کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نئے رولز کو بھی انہی پٹیشنز میں دیکھ سکتی ہے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی اے مطمئن کرے کہ پیکا ایکٹ کی کون سی دفعات سوشل میڈیا پلیٹ فارم بلاک کرنے کا اختیار دیتی ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل بتائیں کہ سوشل میڈیا رولز میں ترمیم کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے بامعنی مشاورت کی گئی یا نہیں؟
سماعت میں سینیئر صحافی حامد میر میں عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وزارت انسانی حقوق میں اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا تھا جس میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا رولز ظالمانہ قانون ہے۔
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک پر پابندی: پی ٹی اے کو معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت
حامد میر نے کہا کہ اجلاس میں کچھ چیزیں تجویز کی گئیں جن سے وفاقی وزیر انسانی حقوق نے بھی اتفاق کیا تھا۔
سینیئر صحافی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور اٹارنی جنرل کے سامنے ماہرین کو بٹھایا گیا لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم انہیں عدالتی معاون مقرر کر کے ان کا مؤقف سن لیتے ہیں، اس پرحامد میر نے عدالتی معاونت کے لیے سوشل میڈیا ماہر صدف بیگ کا نام تجویز کر دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں آیا ہے کہ عدلیہ کے خلاف ایک ٹرینڈ چل رہا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ عدلیہ کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہے تو کیا آپ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بھی بلاک کریں گے؟
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک پر ملک بھر میں پابندی ہے، پی ٹی اے کی وضاحت
انہوں نے مزید کہا کہ بتائیں کہ سوشل میڈیا رولز پر کیا اعتراضات تھے اور انہیں کیسے دور کیا گیا؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چائلڈ پورنوگرافی یا نفرت انگیز تقاریر نہیں ہونی چاہئیں لیکن پبلک آفس ہولڈر اور اداروں پر تنقید ہو سکتی ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ پی ٹی اے کو کون سی دفعات یہ اختیار دیتی ہے کہ آپ پوری سائٹ یا ایپلیکیشن بلاک کردیں؟ آپ تو صرف قابل اعتراض مواد کو بلاک کر سکتے ہیں، پوری ایپلیکیشن یا سائٹ کو نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ غریب لوگوں کے لیے ایک انٹرٹینمنٹ ہے تو آپ اس پوری ایپلیکیشن کو کس طرح بلاک کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق پی ٹی اے سے وضاحت طلب
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شکایت آئے کہ فلاں چیز قابل اعتراض ہے تو اس کو کوئی متعلقہ فورم طے کرے گا،آپ از خود اس بات کا تعین کس طرح کر لیتے ہیں کہ مواد قابل اعتراض ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک فیصد قابل اعتراض مواد پر آپ 99 فیصد مواد کو بھی بند کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ تو اختیار کا غلط استعمال ہے۔
بعدازاں عدالت نے پی ٹی اے حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر 22 نومبر کو اس بات کا جواب دیں اور سماعت ملتوی کردی