امیر مہدی: ایک گمشدہ قومی ہیرو
یہ 2007ء کی بات ہے۔ مانسہرہ کے علاقے چھتر پلین کی ایک روشن صبح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ چھتر موٹل میں معمول کی گہما گہمی کے باعث ماحول متضاد آوازوں کے حصار میں تھا۔
میں اور خدمت گار عملہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں جتے ہوئے تھے۔ اسی دوران مخصوص آواز کے ساتھ مرکزی ہال کا دروازہ کھلا تو میری نظر ایک جانے پہچانے ٹؤرسٹ گائیڈ پر پڑی جو مجھے دیکھتے ہی اپنی تربیت کے عین مطابق مسکراتے ہوئے میری جانب بڑھ رہے تھے۔
پُرجوش انداز میں باآواز بلند سلام کرکے انہوں نے مجھ سے بے اختیار پوچھا، 'خان صاحب، آپ کی آٹو گراف بُک کہاں ہے؟' میں نے قدرے حیرت سے جواب دیا کہ یہیں کہیں میری دراز میں ہوگی۔ میری حیرت کو بھانپ کر گائیڈ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آج آپ کی آٹوگراف بُک میں ایک تاریخی نام شامل ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید وضاحت طلب کرتا میری نظر ان کے عقب میں اک ضعیف العمر غیر ملکی باشندے پر پڑی تو حسبِ روایت میں نے ان سے ہیلو ہائے کرتے ہی بیٹھنے کو کہا۔
ناشتے کا آرڈر دینے کے بعد گائیڈ نے مہمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اطالوی کوہ پیما لینو لاچے دیلی (Lino Lacedelli) ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے میں بہت حیران ہوا کہ اگر یہ شخص واقعی کوہ پیما ہے تو اس عمر میں چوٹی کیا ایک ٹیلہ بھی سر کرنا حقیقتاً نئی تاریخ رقم کرنے کے مترادف ہوگا۔
میرے اندازے کے مطابق کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک طوفان برپا ہونے جا رہا تھا، یکا یک میرا دھیان آٹو گراف بُک کی جانب گیا۔ اس سے پہلے کہ میں سوچ کے ویران دشت میں مزید عربی گھوڑے دوڑاتا، گائیڈ نے مجھے یہ بتانا شروع کیا کہ لینو لاچے دیلی وہ کوہ پیما ہیں جو اب تک کی معلوم تاریخ میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کی پہلی کامیاب مہم کا حصہ تھے۔
یہ جملہ میری سماعتوں کے لیے جتنا حیران کن تھا اس سے کہیں زیادہ میرے لیے ناقابلِ یقین بھی تھا۔ اس دوران گائیڈ میری معلومات میں اضافہ کرتے رہے اور میں لینو لاچے دیلی کو فرطِ حیرت سے تکتا رہا۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ مہم 1954ء میں انجام پائی جبکہ اس وقت لینو لاچے دیلی نے اپنی زندگی کی صرف 20 بہاریں ہی دیکھی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس حکومتی سطح پر کے ٹو سر کرنے کی 50ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے اور اسی سلسلے میں لینو لاچے دیلی کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ یعنی نصف صدی کا عرصہ گزر جانے کے بعد اک بار پھر ان کی منزل کے ٹو بیس کیمپ تھی۔
حیرت سے کسی طور فرار حاصل کرکے میں نے لینو لاچے دیلی سے مخاطب ہوکر کہا، 'ہم آپ کو کے ٹو کی سرزمین پر پھر سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ میرے لیے بحیثیت پاکستانی اعزاز کی بات ہے کہ مجھے آپ سے ملنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ میں اس نادر موقعے سے مستفید ہوتے ہوئے آپ کی اس تاریخی کامیاب مہم سے متعلق جاننا چاہوں گا'۔
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا، 'چونکہ کوہ پیمائی اک نہایت پُرخطر کام ہے اور یقیناً اس شعبے سے آپ نے بہت کچھ سیکھا بھی ہوگا، تو ان تجربات کی بنیاد پر رہتی دنیا کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟'
'تھوڑی دیر سوچنے کے بعد تشکرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے لاچے دیلی نے اپنے مخصوص اطالوی لب ولہجے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ، '31 جولائی 1954ء کو ہم 2 اطالوی کوہ پیما، میں اور اچیلی کمپگنونی (Achille Compagnoni) کے ٹو کی چوٹی پر پہنچنے والے پہلے انسان بنے، یہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ جس کی کل اونچائی 29 ہزار 29 فٹ ہے اور اسے پہلی بار 29 مئی 1953 میں نیپال اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے شرپا ٹینزنگ نورگے (Tenzing Norgay) اور ایڈمنڈ ہلیری (Edmund Hillary) نے سر کیا تھا'۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'اس سے پہلے کے ٹو پر 3 امریکی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں لیکن ہم نے اوپر جانے کے لیے نہایت مناسب راستے کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے باوجود حالات انتہائی غیر موافق تھے۔ لیکن ارادے اگر چٹان ہوں تو پھر کے ٹو جیسے پہاڑوں کو بھی بغیر اسباب کے مسخر کرنا ممکن ہوجاتا ہے'۔
اس ملاقات کے دوران کہا سُنا اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اس کا تذکرہ اہم نہیں کیونکہ گزشتہ برس تک جس لاچے دیلی اور ان کے ساتھی کو میں ہیروز سمجھتا رہا وہ تو اصل میں دھوکے باز تھے۔ کیونکہ 2021ء میں غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ میری نظروں سے گزری جس میں کیے گئے انکشافات نے مجھے نہایت اداس کردیا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ تقریباً 65 برس قبل پاکستانی پورٹر امیر مہدی جنہیں اس کہانی کا اصل ہیرو کہنا غلط نہیں ہوگا، وہ پہلے پاکستانی کی حیثیت سے دنیا کی دوسری اور ملک کی پہلی بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کی اوّلین کامیاب مہم کا حصہ بن سکتے تھے لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ کیونکہ اطالوی ساتھیوں نے انہیں دھوکہ دیتے ہوئے کھلے آسمان تلے بغیر پناہ گاہ کے برف پر ہی رات گزارنے کے لیے چھوڑ دیا۔ خوش قسمتی سے وہ زندہ تو بچ گیے لیکن کے ٹو پر جنم لینے والی ایک دلدوز اور عزم و ہمت کی داستان اپنے نام کرنے والے امیر مہدی کامیاب ہونے والی اطالوی مہم کے رکن ہونے کے باوجود بے رحمی سے نظر انداز کردیے گئے۔
ان کے بیٹے سلطان علی کے مطابق امیر مہدی پہلے پاکستانی کی حیثیت سے کے ٹو پر اپنے ملک کا جھنڈا لہرانا چاہتے تھے لیکن 1954ء میں انہیں انہی لوگوں نے مایوس کیا جن کی مدد کے لیے انہوں نے اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دی تھی۔
چوٹی سر کرنے سے ایک دن پہلے امیر مہدی اور ابھرتے ہوئے کوہ پیما والٹر بوناتی (Walter Bonatti) سے کہا گیا کہ وہ چوٹی کے قریب موجود 2 ساتھوں کے لیے نیچے سے آکسیجن سلنڈر لے کر اوپر پہنچیں۔
چونکہ دیگر پورٹرز نے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے بجائے اس مشن پر جانے سے انکار کردیا تھا تاہم مہدی اور نئے اطالوی کوہ پیما والٹر بوناتی تقریباً 8 ہزار میٹر کی بلندی تک آکسیجن سلینڈر لے جانے کے لیے آمادہ ہوگئے تھے، جہاں انہیں کمپگنونی اور لاچے دیلی سے ملنا تھا۔ امیر مہدی مشن پر محض اس لیے راضی ہوئے کہ انہیں چوٹی پر جانے کا موقع فراہم کیا جا رہا تھا۔
لیکن شام کو جب وہ مقررہ جگہ پر پہنچے تو خیمہ کہیں نظر نہیں آیا۔
جب انہوں نے کمپگنونی اور لاچے دیلی کی تلاش میں انہیں پکارنا شروع کیا تب انہیں جواب ملا کہ وہ آکسیجن چھوڑ کر واپس نیچے چلے جائیں جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ کیمپ اب ایک اور مقام پر منتقل کردیا گیا ہے جو ان کی پہنچ سے کافی دُور تھا۔
انہیں واپس نیچے اترنے کا پیغام مل چکا تھا جس کا مطلب بالکل واضح تھا کہ انہیں خیمے تک جانے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہاں تک رسائی ممکن ہے۔ چونکہ اندھیرا پھیل چکا تھا لہٰذا نیچے اترنا بھی اب ناممکن تھا۔
مہدی اور بوناتی کو منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں برف پر رات گزارنے بلکہ یوں کہیے کہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن دونوں ہی معجزانہ طور پر بچ گئے۔
اگلی صبح آکسیجن سلنڈر وہاں چھوڑ کر مہدی اور بوناتی نیچے اترنے لگے جبکہ کمپگنونی اور لاچے دیلی سلنڈر لے کر چوٹی سر کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ یعنی چوٹی سے صرف 511 میٹر کی دُوری پر ہی انہیں ایسا دھوکہ دیا گیا کہ جس کا ازالہ پھر کبھی ممکن نہ ہوسکا۔
اطالوی کوہ پیماؤں کے برعکس امیر مہدی کو اونچائی کی مناسبت سے برفانی جوتے نہیں دیے گئے تھے۔ انہوں نے فوجی جوتے پہن رکھے تھے جو ان کے ناپ سے 2 نمبر چھوٹے بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں شدید ٹھنڈ کا سامنا کرنا پڑا اور جب وہ بیس کیمپ پہنچے تو وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ انہیں اسٹریچر پر اسکردو کے ایک ہسپتال لے جایا گیا، جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ لیکن مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث انہیں وہاں سے راولپنڈی کے ایک فوجی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
ڈاکٹروں کے پاس گینگرین کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ان کی تمام انگلیوں کو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ جس کے بعد انہیں 8 ماہ تک ہسپتال میں ہی رہنا پڑا۔
اپنے گاؤں واپس آتے ہی مہدی نے اپنی برفانی چھڑی پھینک دی اور گھر والوں سے کہا کہ وہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے بیٹے سلطان علی کے مطابق یہ چھڑی انہیں وہ بھیانک وقت یاد دلاتی ہے جب انہیں سردی میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
بلاشبہ اس تاریخی مہم کی کامیابی میں امیر مہدی کا بہت بڑا حصہ تھا جنہوں نے 2 کوہ پیماؤں اچیلی کمپگنونی اور لینو لاچے دیلی کو اطالوی قومی ہیرو بنا دیا لیکن اس سب کے باوجود انہیں فراموش کردیا گیا۔
دونوں حکومتوں کے مابین طے پانے والے معاملات کے مطابق امیر مہدی کی قربانیوں کو کبھی نہیں سراہا گیا لیکن لاچے دیلی کو بھی اپنے آخری دورہ پاکستان کے موقعے پر مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا۔ یہی وجہ بنی کی انہیں میڈیا کوریج تک نہیں مل سکی جس کا شکوہ بھی ہماری ملاقات کے دوران انہوں نے کیا تھا۔
امیر مہدی نے اپنی زندگی کے اگلے 50 سال مجبوری کی حالت میں گزارے۔
ابتدا میں وہ چلنے پھرنے اور محنت مزدوری سے قاصر رہے اور انہیں معاشی تنگی کا سامنا رہا لیکن بعد میں انہوں نے آہستہ آہستہ دوبارہ چلنا سیکھ لیا۔
بعدازاں اطالوی حکومت کی جانب سے انہیں سرٹیفکیٹس ارسال کیے گئے جن کے مطابق انہیں اعزازات سے نوازا گیا۔
گاہے بگاہے انہیں خطوط اور کتابیں بھی موصول ہوتی رہیں لیکن وہ نہ تو انہیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی ان سے ان کے معاشی مسائل حل ہوئے۔ مہدی کا فراسٹ بائٹ ایک سفارتی شرمندگی تھی۔ اطالویوں پر مہدی کو دھوکہ دینے کا الزام تھا۔
سرکاری سطح پر اطالوی بیانیے نے مہم کے بارے میں سچائی کو مؤثر طریقے سے چھپایا۔ حقائق پر ڈالا گیا یہ پردہ کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ حالانکہ بوناتی نے اسے چیلنج کرنے کی پوری کوشش کی۔
دوسری جانب اس مہم کے بعد مہم کے اطالوی ساتھی کیریئر بنانے، کتابیں لکھنے اور پیسہ کمانے میں لگے رہے جبکہ مہدی پھر کبھی پہاڑ پر نہیں چڑھے۔
2004ء میں لاچے دیلی کی یادداشتوں کی اشاعت کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا جس کی وجہ سے 2007ء میں اطالوی الپائن کلب نے کے ٹو کی تسخیر میں مہدی اور بوناتی کے اہم کردار کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔
لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ کیونکہ مہدی دسمبر 1999ء میں 86 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ لاچے دیلی سے ہماری پہلی اور آخری ملاقات کے تقریباً 2 برس بعد یعنی 20 نومبر 2009ء کو وہ بھی دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔
لیکن اس داستانِ الم سے ہمیں یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ کے ٹو جیسی رفعتوں پر براجمان ہونے سے بھی اخلاقی پستیوں کی پردہ پوشی ممکن نہیں ہوسکتی۔
لکھاری قانون کے گریجویٹ ہیں اور آج کل ایم اے پشتو کی پڑھائی کے ساتھ ایک نجی ہسپتال میں منتظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔