پاکستان کی میزبانی میں 11 نومبر کو افغانستان پر ٹرائیکا پلس اجلاس ہوگا
پاکستان 11 نومبر کو ہمسائیہ ملک افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے امریکا، چین اور روس سفارت کاروں کے مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔
ڈان ڈاٹ کام کو سفارتی عہدیدار نے بتایا کہ افغانستان پر ٹرائیکا پلس اجلاس میں چار ممالک سے نمائندگان خصوصی شرکت کریں گے۔
مزید پڑھیں: روس کی پاکستان کو افغان امن عمل سے متعلق اجلاس میں شرکت کی دعوت
اس موقع پر چاروں ممالک کے نمائندگان خصوصی افغانستان کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی سے بھی ملاقات کریں گے جو 15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد بدھ کو کسی بھی افغان وزیر کی جانب سے پہلے دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔
پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ ‘ٹرائیکا پلس نمائندگان خصوصی کی سطح پر امیر خان متقی سے ملیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹرائیکا پلس افغان حکام کے ساتھ رابطے کے لیے ایک اہم فورم کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، یہ جامع حکومت، افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے طریقوں پر بات کرنے اور انسانی حقوق کی حفاظت خصوصاً خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے تعاون کا اظہار کرے گا’۔
طالبان کی حکومت کے بعد ٹرائیکا پلس کا پہلی مرتبہ مکمل اجلاس ہورہا ہے۔
اس سے قبل یہ اجلاس 11 اگست کو دوحہ میں ہوا تھا جہاں امریکا کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے شرکت کی تھی۔
دوسرا اجلاس 9 اکتوبر کو ماسکو میں روس کی میزبانی میں ہوا تھا لیکن امریکا نے سفری پابندی کا جواز بنا کر شرکت نہیں کی تھی۔
بعد ازاں زلمےخلیل زاد کی جگہ ٹام ویسٹ کو مقرر کیا گیا اور امریکا نے پاکستان میں رواں ہفتے ہونے والے ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کی خواہش ظاہر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بحران کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں پر زور
پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ ‘امریکا ممکنہ طور پر جامع حکومت، خواتین کے حقوق اور انتظامی معاملات پر طالبان کے مؤقف میں لچک کے حوالے سے بات کرے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا انسانی بحران کے حوالے سے بھی اپنی تشویش کا اظہار کرے گا جو بینکوں پر پابندیوں کے باعث جنم لے رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ افغانستان کی صورت حال پر روس، چین اور پاکستان کی پوزیشن کا بھی جائزہ لیا جائے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ‘افغان ریاستی عناصر اور معاشرے میں دوریوں پر بھی امریکا کو پریشانی ہوسکتی ہے جس سے دہشت گردی اور انتہاپسند گروپوں کے جنم لینے اور خطے میں عدم استحکام کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے’۔