یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد نے کورونا کی وبا کے آغاز پر اپریل سے جون 2020 کے دوران اپنا زیادہ وقت گھر پر بیٹھ کر گزارا، ان میں ڈپریشن کی علامات بڑھ گئیں۔
محققین نے بتایا گیا کہ بیٹھے رہنا ایسا کام ہے جو ہم ہر وقت اس پر سوچے بغیر کرتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم نے توجہ مرکوز کی تھی کہ جسمانی سرگرمیاں اور سست طرز زندگی کس حد تک ذہنی صحت سے منسلک ہیں اور ان میں آنے والی تبدیلیاں کس حد تک اثرانداز ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ 2020 میں ہم جانتے تھے کہ کووڈ سے ہمارے رویوں پر اثرات مرتب ہوں گے مگر ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے کتنے عجیب اثرات کا سامنا ہوگا۔
اس تحقیق میں 3 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کرکے ان سے سروے کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ وبا سے قبل بیٹھنے، اسکرین دیکھنے اور ورزش وغیرہ پر وہ کتنا وقت گزارتے تھے اور معمولات بدلنے سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں آئیں۔
ماہرین نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ جسمانی سرگرمیاں اور اسکرین ٹائم میں تبدیلیاں ذہنی صحت سے جڑی ہوتی ہیں، مگر ہمارے پاس اب تک اچانک تبدیلی سے گزرنے والی بہت زیادہ بڑی آبادی کا ڈیٹا نہیں تھا۔
سروے کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ کووڈ 19 کی پابندیوں کے باعث جسمانی سرگرمیوں کا وقت کم ہونے کے نتیجے میں لوگوں کی جانب سے ڈپریشن، ذہنی بے چینی اور تنہائی کے احساس کو زیادہ رپورٹ کیا گیا۔
اسی ٹیم نے پھر ایک فالو اپ تحقیق پر کا کیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ وقت کے ساتھ ان افراد کے رویوں اور ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری تحقیق میں ہم نے دریافت کیا کہ اپریل سے جون کے دوران اکثر افراد کی ذہنی صھت میں بہتری آئی کیونکہ وہ زندگی سے مطابقت اختیار کرنے لگے تھے، مگر جو لوگ اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے تھے ان میں ڈپریشن کی علامات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
آسان الفاظ میں ایسے افراد نے زیادہ وقت بیٹھ کر وبا کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ ذہنی صحت میں بہتری کے اثرات کو زائل کردیا۔