ہمارے ملک میں اخلاقیات کے ساتھ معیشت بھی نیچے آگئی، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں جب اخلاقیات تباہ ہوئیں تو اسی کے ساتھ معیشت بھی گرنا شروع ہوئی کیونکہ کرپشن اخلاقی زوال کا نتیجہ ہے۔
اسلام آباد میں سول سورسز اکیڈمی کی انعامات تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتےہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کرپشن اخلاقی تباہی کی نشانی ہے، جس طرح کینسر کی وجہ ایک پھوڑا نکلتا ہے اسی جب ایک قوم میں جب اخلاقیات ختم ہوتی ہے تو کرپشن نکل آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا چینی کے ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں کےخلاف کارروائی کا حکم
شرکا کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی ابھی شروعات ہیں، اصل امتحان اب ہوگا، انسان کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو آزمایا جاتا ہے، اچھے وقت میں کوئی بھی اچھا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزمائش میں پتہ چلتا ہے کہ آپ کا ایمان کتنا مضبوط ہے تو آپ کی آزمائش ابھی شروع ہوئی ہے، آپ کا مستقبل آپ کا منتظر ہے کہ آپ کہاں جاتے ہیں اور کتنے بڑے انسان بنتے ہیں اور کیا حاصل کرنا چاہتےہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جس کے خواب بڑے ہوں اور بڑے خواب دیکھتا ہے، جو آئیڈلسٹ ہوتا ہے، کبھی رئیلسٹ بڑا انسان نہیں بنا، جس آدمی نے سب سے پہلے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا اگر وہ رئیلسٹ ہوتا تو کبھی سر نہیں کرتا کیونکہ اس سے پہلے جس نے بھی کوشش کی تھی یاتو وہ مرگئے تھے یا ناکام ہوئے تھے، رئیلزم تو کہتی تھی یہ نہیں چڑھ سکتا لیکن آئیڈلزم کہتی تھی سر کرنے کے لیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ درحقیقت آپ کو ایمان دیتا ہے، سب سے بڑی قوت ایمان کی ہوتی ہے، ایمان انسان کی اپنی تمام حدوں کو ختم کردیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ راستے میں ہمیشہ مواقع ملیں گے اور دو چوائسز ملیں گی، ایک راستہ وہ ہے جو لگتا بڑا مشکل ہے لیکن وہ راستہ جہاں نعمتیں ملتی ہیں، دوسرا راستہ جو شارٹ کٹ ہے اور دنیا بھی یہ کرتی ہے تو ہم بھی کرلیں، ہروقت احساس ہوگا کہ آپ زمینی حقائق نہیں جانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ دو راستوں پر فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ ایک آپ کی عظمت کا راستہ ہے اور دوسرا راستہ جولگتا بڑا پرکشش ہے نہیں انسان کی تباہی کا ہے۔
مزید پڑھیں: ‘کورونا میں مہنگائی کا معاملہ پاکستان نے دیگر ممالک سے بہتر انداز میں سنبھالا‘
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک کو عظیم بننا تھا اور ہمارے دور میں عظیم بن رہا تھا، 60 کی دہائی میں پاکستان کی بیوروکریسی سارے ایشیا میں نمبر ون سمجھی جاتی تھی، اس کا بڑا معیار اور عظمت تھی اور پھر آہستہ آہستہ ہم دوسرے راستے پر چلے گئے جو ہماری تباہی کا راستہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں معاشی گراوٹ پہلے نہیں آتی بلکہ پہلے اخلاقیات گرتی ہے پھر آپ کی معاشی گراوٹ آتی ہے، جب آپ کی اخلاقیات تباہ ہوتی ہے تو اس کے بعد معیشت تباہی کی طرف جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں سارے غریب ملکوں میں کرپشن منفرد ہوگی کیونکہ ان کی اخلاقی اقدار گرجاتی ہیں، سارے امیر ملکوں میں ایک چیز کامن ہوگی کہ ان کے پاس اخلاقی قوت ہوگی انصاف دینے کے لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک معاشرہ جس کے اندر اخلاقیات نہیں ہوتی وہ انصاف بھی نہیں کرسکتا، وہ پھر این آر او دیتا ہے اور چوروں سے ڈیل کرتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے کہ تمھارے سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوئیں جہاں طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا تھا، اس کا مطلب ہے جو قوم انصاف نہیں کرسکتی، اگر آپ طاقت ور کو اوپر رکھ رہے ہیں تو آپ انصاف نہیں کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں آہستہ آہستہ اخلاقیات گریں اور اخلاقیات کے ساتھ ہماری معیشت نیچے گئی۔
انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں جب بھارت سے کرکٹ کھیل کر واپس آتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ غریب ترین ملک سے امیر ترین ملک میں آگیا ہوں، آہستہ آہستہ وہ بھی ہم سے آگےنکل گیا، بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان تھا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ بوجھ بنا ہوا ہے وہ ہمارے سے آگے نکل گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسےہمارے ملک میں چوری اور کرپشن کو برا نہیں سمجھنا شروع کیا، تباہی ایلیٹ سے ہوتی ہے، جب ایلیٹ کی اخلاقیات جاتی ہے تو پورے ملک کی اخلاقیات جاتی ہے، اوپر سے وزیراعظم سے شروع ہوتا ہے اور نیچے اس کے وزیروں تک چلی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی ایک انسان جو حق پر کھڑا ہوا ہو اس کی طاقت کو نظرانداز نہ کریں، جب آپ سچ پر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کے پاس اللہ کی قوت آجاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا 2 کروڑ خاندانوں کیلئے 120 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ میں جب کرکٹ کھیلتا تھا تو آسٹریلیا میں کیری پیکر سیریز تھی جس میں بڑا پیسہ تھا لیکن آج کے مقابلے میں بہت کم تھا، وہاں ورلڈ الیون ایک ٹیم بنی تھی جس میں ہم شامل تھے اور وہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز سے جیت گئی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم میچ جیت گئے تو 11 کھلاڑیوں نے کہا کہ انعام کے پیسے پورے اسکواڈ کے بجائے ہم نے کھیلا ہے تو یہ 11 کھلاڑیوں میں آپس میں تقسیم ہونے چاہیے اور سب نے باری باری یہی کہا لیکن انگلینڈ کے ایک کھلاڑی ایلن ناٹ نے کہا سب کو شرم آنی چاہیے وہ اسکواڈ کا حصہ ہیں اگر وہ نہ کھیلیں تو بھی ان میں تقسیم کرنا چاہیے اور وہ کٹر عیسائی تھا لیکن وہ سچ بول رہا تھا اور دیگر سب کو شرم آئی۔