نقطہ نظر

انسانی اسمگلنگ کا المیہ: جب یورپ جانے کے خواہشمند پیاسے مرجاتے ہیں

اس سفر کو 'ڈنکی مارنا' کہتے ہیں جس میں سفر کی مشکلات کے ساتھ کچھ تارکینِ وطن کو اغوا برائے تاوان کے عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے

18 سالہ محمد زبیر پشاور کے علاقے گڑھی قمردین کے رہائشی ہیں اور 5 بھائیوں میں ان کا چوتھا نمبر ہے۔ ان کے والد خرات کا کام کرتے ہیں۔ محمد زبیر ایف اے پاس کرنے کے بعد بے روزگار تھے، انہوں نے واپڈا میں ایک آسامی کے لیے درخواست جمع کروائی لیکن ٹیسٹ و انٹرویوز منسوخ ہونے کے سبب مایوسی نے انہیں گھیر لیا اور یوں انہوں نے روزگار کے لیے ایک پُرخطر راستے کا انتخاب کیا۔

رواں سال 15 ستمبر کو انہوں نے والدہ کے بار بار انکار کرنے کے باوجود 35 ہزار روپے لیے اور غیر قانونی طور پر ترکی پہنچنے کے لیے رختِ سفر باندھا۔ انہوں نے ایجنٹ کو ترکی تک پہنچانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے دینے کا وعدہ بھی کیا۔ وہ پاکستان میں بلوچستان کے دشوار گزار راستوں پر کہیں گاڑی میں اور کہیں پیدل سفر کرکے ایران پہنچنے کے بعد ترکی کی سرحد کے قریب ایک خواب گاہ میں سورہے تھے کہ وہاں چھاپہ پڑگیا اور وہ 60 سے زائد دیگر غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن کے ہمراہ گرفتار کرلیے گئے۔

ایرانی حکومت نے ان افراد کو بعدازاں اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں تفتان سرحد کے ذریعے پاکستانی حکومت کے حوالے کیا۔ پاکستان ڈی پورٹ کیے جانے کے بعد محمد زبیر نے بتایا کہ 'سکندر نامی ان کے ایک ہمسائے ترکی میں کام کرتے ہیں اور ہر ماہ اپنے گھروالوں کو 60 ہزار روپے بھجواتے ہیں۔ ان پیسوں سے ان کا خاندان خوشحال زندگی بسر کررہا ہے اور اسی بات نے انہیں حصولِ روزگار کے لیے ترک وطن پر مجبور کیا'۔

تفتان سرحد پر ڈی پورٹ کیے جانے والے محمد زبیر جیسے کئی نوجوانوں سے ہماری بات ہوئی جن میں اکثر لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر غیر قانونی طور پر ایران اور ترکی سمیت یورپی ممالک جاکر روزی روٹی کمانا چاہتے تھے لیکن انہیں اس سفر کی مشکلات کا نہ تو اندازہ تھا اور نہ ہی ایسی کوئی توقع تھی۔

ان لوگوں میں مردان سے تعلق رکھنے والے شاہ میر خان بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے تاہم بہتر روزگار کی تلاش نے انہیں ایران جانے پر مجبور کردیا۔ ان افراد میں کچھ تو منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں اور باقی پاکستان میں ہی گرفتار ہوتے ہیں یا ایران اور ترکی میں پکڑے جانے کے بعد ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں۔ انہیں بعد ازاں ایف آئی اے کی جانب سے عدالتی کارروائی کے ذریعے پاسپورٹ ایکٹ کے تحت قید و جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔

تفتان سرحد پر تعینات لیویز فورس کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انسانی اسمگلروں کے کئی نیٹ ورک پاکستان، ایران اور ترکی سمیت یورپی ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں جن کا کام بے روزگار افراد کو بہترین روزگار کا لالچ دے کر انہیں غیر قانونی سفر پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق یہ اسمگلر خود قانونی طور پر سفر کرتے ہیں جبکہ پاک ایران سرحد پر آباد مقامیوں کی مدد سے ان تارکینِ وطن کو سرحد پار کرواتے ہیں جن میں کچھ لوگ حادثات، سخت موسمی حالات اور کچھ سرحدی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل انسانی اسمگلر کی بے حسی نے چاغی میں 3 قیمتی زندگیوں کا چراغ گل کردیا تھا۔

رواں سال 5 اگست کو غیر قانونی طور پر ایران کے راستے یورپ جانے کے خواہشمند 10 افراد جن کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا ایک پک اپ گاڑی میں چاغی کے علاقے نوکنڈی سے ایرانی سرحد سے متصل ضلع واشک کے علاقے ماشکیل جارہے تھے۔ راستے میں پیسوں کی مبیّنہ لین دین کے تنازعے پر ڈرائیور نے ان افراد کو نوکنڈی کے نواح میں ایک ویران صحرائی علاقے میں اتار کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جس کے بعد وہ 2 دنوں تک آبادی اور پانی کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ اس دوران حافظ محمد بلال، خلیق الرحمٰن اور محمد سجاد نامی 3 نوجوان جان کی بازی ہار بیٹھے جبکہ باقی لوگوں کو چند منشیات اسمگلرز نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بچالیا۔

خلیق الرحمٰن کی لاش 2 دن بعد ورثا کے حوالے کی گئی جبکہ حافظ محمد بلال اور محمد سجاد کی لاشوں کو راہ گیروں نے امانتاً دفنا دیا تھا۔ بعدازاں یکم ستمبر کو لیویز فورس نے ان لاشوں کی باقیات برآمد کرکے کوئٹہ میں ان کے لواحقین کے حوالے کردیں۔

متاثرین کے ایک رشتہ دار زاہد حسین نے بتایا کہ 'دالبندین سے تعلق رکھنے والے سعید نامی انسانی اسمگلر نے فی فرد مبلغ 11 ہزار روپے کے عوض ایرانی سرحد تک پہنچانے کی ہامی بھری لیکن پھر اچانک ہر شخص سے 35 ہزار روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ مطلوبہ رقم نہ ملنے پر اس نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا'۔

اسسٹنٹ کمشنر تفتان کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق وہ مذکورہ اسمگلر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں جبکہ ان کا ایک ساتھی گرفتار ہوچکا ہے۔ بعد ازاں لیویز فورس نے مذکورہ انسانی اسمگلر کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جو تاحال مقامی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

تفتان سرحد پر واقع وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفتر سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 4 برسوں کے دوران ایران سے 83 ہزار 343 غیر قانونی تارکینِ وطن کو تفتان سرحد کے ذریعے ڈی پورٹ کیا جاچکا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں 21 ہزار 39 جبکہ 2018ء میں 25 ہزار 573 افراد ڈی پورٹ کیے گئے۔ حتیٰ کہ کورونا وبا کے سبب عائد کردہ پابندیوں کے باوجود بھی انسانی اسمگلنگ کا کام کسی نہ کسی طرح چلتا رہا جس کے سبب 2019ء اور 2020ء میں بالترتیب 17 ہزار 321 اور 19 ہزار 410 غیر قانونی تارکینِ وطن ایران سے ڈی پورٹ کیے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق رواں سال ستمبر تک 16 ہزار 342 افراد کو ایرانی حکومت نے ڈی پورٹ کیا اور یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی کتنی بڑی تعداد روزگار کے مواقع ڈھونڈنے کے لیے غیر قانونی ہجرت کی جانب راغب ہورہی ہے۔ اس سفر کو عام طور پر 'ڈنکی مارنا' کہتے ہیں جس میں سفر کی مشکلات کے ساتھ ساتھ کچھ تارکینِ وطن کو جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے اغوا برائے تاوان کے عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ایف آئی اے کے افسر وحید مگسی کے مطابق ایران اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی تارکینِ وطن کو اغوا کرکے لاکھوں روپے تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تاوان ادا نہ کرنے والوں پر اغوا کار بدترین تشدد کی ویڈیوز پاکستان میں موجود خاندان کے افراد کو واٹس ایپ کرکے پیسے طلب کرتے ہیں۔

وحید مگسی کے مطابق ایف آئی اے نے متعدد انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرکے سزا دلوائی ہے لیکن چونکہ یہ کالا دھندہ بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے اس لیے ان جرائم پر قابو پانا آسان نہیں۔

ایک جانب پاکستان دہشتگردی اور غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے کی غرض سے ایران اور افغانستان سے متصل اپنی سرحدوں پر تیزی سے باڑ لگا رہا ہے وہیں دوسری جانب ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ بہت سے شہری بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے غیرقانونی طور پر سرحد پار جا رہے ہیں۔

930 کلومیٹر طویل ایرانی سرحد کو غیرقانونی ہجرت کا گیٹ وے تصور کیا جاتا ہے۔ اس سرحد سے بلوچستان کے 5 اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر متصل ہیں جہاں شہروں سے باہر ریاست کی موجودگی کی محدود نشانیوں کے طور پر چند چیک پوسٹس اور ایک ہی سیدھ میں بچھی ٹوٹی پھوٹی پکی سڑکیں نظر آتی ہیں۔

ان علاقوں میں اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش اسمگلنگ کے مختلف ذرائع سے وابستگی ہے۔ انہیں قانونی اور باعزت روزگار دینے کے لیے آج تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ انسانی اسمگلنگ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا میں کئی ممالک کے لیے ایک حل طلب مسئلہ ہے۔

دفترِ اقوامِ متحدہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق افراد کی اسمگلنگ ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ادارے کے مطابق ہر سال ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے، حالات سے تنگ آکر یا بہتر زندگی کی تلاش میں مقامی اور پھر بین الاقوامی انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا پھر انہیں زبردستی اسمگل کردیا جاتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہی انسانی اسمگلنگ سے جڑے مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

یو این او ڈی سی کے مطابق صرف 2018ء میں انسانی اسمگلنگ سے متاثرہ 50 ہزار افراد کی نشاندہی کرکے ان کی معلومات دنیا کے 148 ممالک کو فراہم کی گئیں۔ ان میں سے 50 فیصد کو جنسی استحصال اور 38 فیصد کو جبری مشقت کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ ادارے کے مطابق اسمگلرز کی جانب سے خواتین (46 فیصد خواتین اور 19 فیصد لڑکیاں) اس مہم کا بڑا شکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ادارے کے مطابق نشاندہی شدہ متاثرین میں ہر تیسرا متاثر ایک بچہ ہے۔

گزشتہ 15 سال میں انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھنے والے ان متاثرین میں بچوں کی تعداد میں 3 گنا جبکہ لڑکوں کی تعداد میں 5 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

پاکستان نے اس مسئلے کی سنگینی کے پیشِ نظر 2018ء ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے 2 نئے قوانین متعارف کروائے، جن میں سے ایک انسدادِ مہاجرین ایکٹ 2018ء اور دوسرا انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018ء ہے۔ ان 2 قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974ء، امیگریشن آرڈیننس 1979ء، فارینرز ایکٹ 1946ء، انسدادِ انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002ء اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔

ان قوانین کی روشنی میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں سنائی جاسکتی ہیں، جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے 'اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل' کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جو ادارے کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے لیکن ہنوز اس مکروہ دھندے کا جاری رہنا حکام سے مزید توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔


تصاویر بشکریہ لکھاری


لکھاری چاغی میں مقیم ڈان اخبار کے نمائندے ہیں۔

ٹوئٹر اکاؤنٹ: aliraza_rind@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

علی رضا رند

لکھاری چاغی میں مقیم ڈان اخبار کے نمائندے ہیں۔

ٹویٹر اکاؤنٹ: @aliraza_rind

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔