شاخ نازک کا آشیانہ: اقبال کے قیامِ یورپ کی روداد
مؤرخ، فلسفی اور شاعر علم و فن کی دنیا میں الگ الگ جہتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ شعور و ادراک، تخیل و احساس اور تلاش و جستجو کی ان راہوں میں بہت سی باتیں ان میں مشترک بھی ہوتی ہیں اور متضاد بھی۔
اب اسے حسنِ اتفاق کہیے یا قدرت کاملہ کا کرشمہ کہ اقبال کی شخصیت میں یہ تینوں جہات کسی نہ کسی صورت ہمیں یکجا دکھائی دیتی ہیں۔ اس لیے اقبال کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ان تینوں حیثیتوں کو مدِنظر رکھنا پڑتا ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ:
اقبال کی ان 3 جہتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ان کے قیامِ یورپ کو نہایت باریکی سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی مؤرخانہ جہت اور فلسفیانہ افکار کو ملنے والی وسعت اور پختگی کا درست انداز میں تجزیہ ہوسکے۔
اقبال کی زندگی اور ان کے کلام میں جس طرح سوزِ حیات اور روحِ انسانی کا نغمہ موجود ہے وہ صرف ہماری فکر کی آبیاری نہیں کرتا بلکہ علمِ فن کی چوٹیوں کے پھوٹنے والے دریاؤں اور ندیوں کو کوزے میں بند کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کئی سطحوں پر حرکتِ حیات کی علامت بن کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
اس مضمون میں اقبال کے قیامِ یورپ (1907ء-1905ء) میں انہوں نے جن علمی، ادبی اور فلسفیانہ علوم کو حاصل کیا اور جن تجربات سے وہ گزرے، ان مراحل کو پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
اقبال کی زندگی اور ان کی فکر پر 3 سالہ قیامِ یورپ نے گوناگوں تجربات اور خاصے وسیع اثرات مرتب کیے۔ یورپ کے علمی باطن میں جھانکنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی فکر کا بھی درست تجزیہ کیا ہے۔
اس 3 سالہ قلیل دور میں وہ اپنے استاد سر ٹامس آرنلڈ (Thomas Walker Arnold) کی صحبت میں فکر و فلسفے کے کئی اسرار و رموز کو سمجھ چکے تھے۔ اردو زبان و ادب سے لگاؤ رکھنے والا طالب علم ان کے نام سے شناسا ہے۔ سر ٹامس آرنلڈ 1888ء میں ایم اے او (محمڈن اینگلو اورینٹل) کالج علی گڑھ اور 1898ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اپریل 1899ء اور پھر اگست 1902ء سے اپریل 1903ء تک یونیورسٹی اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل رہے۔ 1904ء میں انڈیا آفس لائبریری (لندن) کے اسسٹنٹ لائبریرین مقرر ہوئے۔
علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کی تعلیم انہی سے حاصل کی۔ یورپ میں علامہ اقبال نے جب شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا تو سر ٹامس آرنلڈ ہی نے انہیں اس ارادے سے باز رکھا۔ سر ٹامس آرنلڈ کا اثر صرف اقبال کی زندگی پر نہیں بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے کئی پہلوؤں پر ان کے اثرات کو علمی لحاظ سے دیکھا جاسکتا ہے۔
رسالہ ’مخزن‘ کے مدیر شیخ عبدالقادر جو اقبال کے گہرے دوست تھے اور قیامِ یورپ میں ان کے ہم راز تھے وہ رسالہ مخزن میں اپنی اور آرنلڈ کی گفتگو بیان کرتے ہوئے آرنلڈ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ (آرنلڈ) سے کہا کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ شاعری کو ترک کردوں گا اور قسم کھا لی ہے کہ شاعری نہیں کروں گا۔ جو وقت شاعری میں صَرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں لگاؤں گا۔ میں نے (یعنی آرنلڈ نے) ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی نہیں جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری در ماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب امراض کا علاج ہوسکے۔
اس اقتباس سے سر ٹامس آرنلڈ کے اس احسان کو محسوس کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے اردو دنیا اور اقبال کی شخصیت پر کیے۔ اگر وہ اقبال کو فلسفے سے روشناس نہ کرواتے اور شاعری جاری رکھنے کا مشورہ نہیں دیتے تو شاید زبان و ادب اور جنوبی ایشیا کی سیاسی، تہذیبی اور فکری زندگی میں اقبال جیسے مردِ قلندر اپنی تخیل فکر کا نمونہ اس انداز میں پیش نہیں کرپاتے۔
خود اقبال نے سر ٹامس آرنلڈ کے بارے میں جو نظمیں لکھی ہیں اس سے ان کی محبت اور دلی وابستگی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جب 1904ء میں آرنلڈ گورنمنٹ کالج لاہور سے رخصت ہوکر لندن چلے گئے تو اقبال نے ان کی یاد میں نظم ’نالہ فراق‘ لکھی۔
پرفیسر آرنلڈ سے جو دلی و روحانی وابستگی انہیں لاہور اور کیمبرج کے دوران تھی وہ تادمِ آخر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے The Development of Metaphysics in Persia کے انتساب سے کیا جاسکتا ہے۔
علامہ اقبال نے یکم اکتوبر 1905ء کو ٹرنٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا۔ وہ اس کالج میں درجہ اعلیٰ کے طالب علم (Advanced Student) کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ یعنی ایسا طالب علم جس کے پاس پہلے سے کسی یونیورسٹی کی بی اے یا ایم اے کی ڈگری ہو۔ یہاں ان کے استاد ایڈم سیج وک (Adam Sedgwick) تھے جو اس یونیورسٹی میں علمِ حیوانیات کے پروفیسر تھے۔
ٹرنٹی کالج کیمبرج کا سب سے بڑا کالج ہے۔ اس کالج سے نیوٹن، لارڈ بائرن، ٹینی سن اور برٹرینڈ رسل جیسی شخصیات نے تحصیلِ علم کیا۔ علاوہ ازیں جواہر لال نہرو بھی اسی کالج میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اس کالج کے ڈائننگ ہال میں پاکستان کے نامور مصور گل جی کا اقبال پر بنایا ہوا پورٹریٹ بھی آویزاں تھا لیکن پھر کسی وجہ سے اسے یہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اقبال کیمبرج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
کیمبرج میری نظر میں دنیا کے حسین ترین شہروں سے ایک ہے۔ وینس کے علاوہ میں کسی ایسے شہر سے واقف نہیں جو دل کشی، رعنائی، قدیم تاریخی ماحول اور فطری جمال کا ایسا مرقع پیش کرے جو کیمبرج میں نظر آتا ہے۔
اس شہر میں بقول شاعر
’اقبال یورپ میں‘ اور ’نوادر اقبال یورپ میں‘ کے مصنف سعید اختر درانی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اقبال نے اس شہر سے جتنے لگاؤ کا اظہار کیا تو پھر پی ایچ ڈی کی سند کے لیے وہ جرمنی کیوں گئے؟
سعید اختر درانی مزید لکھتے ہیں کہ:
اس سوال کے جواب کے لیے جب میں نے تحقیق کی تو یہ راز مجھ پر کھلا کہ کیمبرج میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے قواعد مئی 1910ء میں مرتب ہوئے اور پہلے پی ایچ ڈی کے طالب علم نے 1921ء میں وہاں داخلہ لیا تھا۔ اس سے پیش تر طالب علم اعلیٰ ڈگریوں کے حصول کے لیے جرمنی جایا کرتے تھے۔ اسی لیے اقبال نے میونخ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
اقبال جب کیمبرج میں تھے تو اس وقت یہاں شہر ہ آفاق فلسفی موجود تھے، کئی نامور مستشرقین یہاں درس و تدریس سے وابستہ تھے اور ان میں برٹرینڈ رسل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
اقبال کو ٹرنٹی کالج میں ڈاکٹر میک ٹیگرٹ (J.M.Mc Taggart) کی نگرانی میں اپنا مقالہ تحریر کرنا تھا جو ہیگیلین (Hegelian) فلسفے کے نامور محقق اور عالم مانے جاتے تھے۔ اقبال کے افکار و نظریات پر انہوں نے کافی گہرے اثرات مرتب کیے۔ دوسرے استاد پروفیسر سورلی (W.R Sorley) تھے جن کا میدانِ خاص نظریہ اُلوہیت اور اخلاقی اقدار تھا۔
فلسفیانہ مباحث اور ان کے مبادیات کے علاوہ اقبال کیمبرج میں تاریخ اسلام اور فارسی شعر و ادب سے بھی مستفید ہوتے رہے۔ ان شعبوں میں بھی اس وقت کیمبرج یونیورسٹی مالا مال تھی۔ ان میں ایک مستشرق ڈاکٹر نکلسن (R.A Nicholson) بھی ہیں جو مولانا روم پر سند رکھتے تھے۔ اقبال کی اہم مثنوی ’اسرار خودی’ کا انگریزی ترجمہ 1920ء میں ڈاکٹر نکلسن نے ہی کیا تھا۔ نکلسن کے علاوہ ڈاکٹر براؤن (E.G Brown) نے بھی اقبال کے مقالے The Development of Metaphysics in Persia میں کافی مدد کی۔
جولائی 1907ء میں اقبال لندن سے میونخ پہنچے۔ پروفیسر آرنلڈ نے انہیں توجہ دلائی کہ وہ جرمنی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرلیں۔ اس میں آرنلڈ کے علاوہ کیمبرج کے اور دیگر اساتذہ کا عمل دخل بھی تھا۔ ذاتی طور پر اقبال جرمنوں کے مداح تھے اور کہا کرتے تھے کہ، ’اگر علم کو پختہ کرنا ہے تو جرمنی جاؤ‘۔ ان عوامل کی بنا پر انہوں نے جرمنی جانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اپنے بھائی شیخ عطا محمد سے رقم بھیجنے کی درخواست کی۔ شیخ عطا محمد ہی نے ان کی اعلیٰ تعلیم کی کفالت کی تھی۔
اقبال نے میونخ میں لڈ وگ ملین یونیورسٹی میں درخواست دی کہ انہیں پی ایچ ڈی کے لیے The Development of Metaphysics in Persia کے عنوان سے جرمن یا لاطینی زبان کے بجائے انگریزی زبان میں مقالہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت ملنے پر اقبال نے اپنا مقالہ جمع کرادیا۔ البتہ یونیورسٹی نے یہ شرط عائد کی کہ انہیں 3 ماہ جرمنی میں مقیم رہ کر جرمن زبان سیکھنی ہوگی۔
ان تمام امور کو انجام دے کر اقبال ہائیڈل برگ چلے گئے۔ دریائے نیکر کے کنارے شیرر منزل (Scherrer Mansion) میں اقامت اختیار کی۔ اسی منزل میں ان کی ملاقات ایما ویگیناسٹ (Emma Wegenast) سے ہوئی جو ان کی جرمن زبان سکھانے کی استاد تھیں۔ یہ ملاقات اقبال کے ذوقِ جمال کی تسکین اور جمالیاتی پختگی کے لحاظ سے شاعر اقبال کے لیے زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ بن گئی۔
وہ ایما کے ساتھ خاصا وقت گزارتے۔ جرمن زبان کی مشق بھی کرتے اور اس کے ساتھ شعر و ادب اور بعض علمی موضوعات پر گفتگو بھی کرتے۔ خاص کر جرمن شعرا میں گوئتھے، ہائنے ان کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ ایما اقبال سے 2 برس چھوٹی تھیں اور انہوں نے اپنی تعلیم ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ ایما کی بہن سوفی ویگیناسٹ کے مطابق ایما کو اس گھرانے کا دماغ کہا جاتا تھا۔
اقبال اور ایما کے 28 خطوط کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اقبال کے نزدیک ایما گوتھے بھی ہیں ہائنے اور شوپن ہار بھی۔ وہی ہائیڈل برگ بھی ہیں اور دریائے نیکر بھی۔
اقبال کی زندگی میں ایما ویگیناسٹ نے زبان سکھانے کے ساتھ دل جیتنے کا عمل اپنے حُسن کردار سے انجام دیا۔ اس رویے اور عمل کی وجہ سے اقبال کے محسوسات میں یہ بات جا گزیں ہوگئی کہ ایما ہی میری زندگی کی حقیقی قوت ہے اور جرمنی میرا دوسرا روحانی وطن۔ 1931ء میں جب اقبال لندن گئے تو وہاں سے ایما کو لکھا کہ:
میں ہائیڈل برگ کے وہ ایام کبھی فراموش نہ کرسکوں گا جب آپ نے مجھے گوئتھے کا فاؤسٹ پڑھایا اور دیگر کئی طرح سے میری مدد کی تھی۔ وہ کیا ہی بہجت افزا دن تھے۔ میں اپنی سی پوری کوشش کروں گا کہ میں ہائیڈل برگ آؤں اور آپ سے اسی پُرانے مقام پر ملاقات کروں۔ مجھے اب تک دریائے نیکر یاد ہے جس کے کنارے ہم دونوں گھوما کرتے تھے۔
بانگ درا کی نظم ’دریائے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر‘ انہی لمحات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتی ہے۔
اس دور کی دیگر نظموں ’حسن و عشق‘، ’وصال‘ میں بھی اقبال نے انہی جذبات کو بیان کیا ہے۔
خیر 4 نومبر 1907ء کو 5 رکنی بورڈ جس کے سربراہ نگران مقالہ پروفیسر فریڈرش ہو مل تھے انہوں نے اقبال کا زبانی امتحان لیا اور ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں پی ایچ ڈی کی سند جاری کی۔
یونیورسٹی نے انہیں جو سند جاری کی اس پر اقبال کے لیے یہ کلمات لکھے ہوئے ہیں:
یہ سند Famous and learned man and exalted person کو with Great Praise کے ساتھ جاری کی جارہی ہے۔
میونخ سے اقبال 5 نومبر کو روانہ ہوئے شاید اقبال نے اپنا دل بھی یہیں کہیں رکھ چھوڑا تھا جس کے لیے انہوں نے کہا کہ
یکم جولائی 1908ء کو انہیں لنکنز اِن سے بار ایٹ لا کی ڈگری مل گئی۔ جرمنی سے واپسی کے بعد انہوں نے لندن میں کئی اہم موضوعات پر لیکچر دیے اور یہاں ان کی ملاقات بیگم عطیہ فیضی سے بھی ہوئی جو اقبال کی زندگی کے بابِ جمال میں اضافہ ہے۔
اقبال کی علمی اور تعلیمی اکتسابات کے باب میں یہ 3 سالہ دور باثروت ہی نہیں بلکہ اپنی پوری جلوہ آفرینی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے صرف 3 سال کی مختصر سی مدت میں کیمبرج سے بی اے، میونخ سے پی ایچ ڈی اور لنکنز اِن سے بیرسٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس اعتبار سے وہ جنوبی ایشیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں سے جانے والی کئی شخصیات اس مقام کو آج تک پا نہیں سکیں حتیٰ کہ ان کے بیٹے جاوید اقبال 7 برس انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے لیے مقیم رہے مگر اقبال کی شخصیت کا امتیاز ان کی عبقریت کا پتا دیتا ہے۔
یہ تحریر پہلی بار 9 نومبر 2021ء کو شائع ہوچکی ہے۔
لکھاری جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک تحقیقی مجلے ششماہی تحصیل کے نائب مدیر بھی ہیں۔ پاکستان کے معروف مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔