پاکستان

لاہور: مختلف مقدمات میں زیر حراست ٹی ایل پی رہنماؤں کی ضمانت منظور

عدالت نے تمام ٹی ایل پی رہنماؤں کو ایک ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کئی رہنماؤں کو ان کے خلاف درج کئی مقدمات میں ضمانت دے دی۔

ضمانت منظور ہونے والوں میں مولانا فاروق الحسن، غلام غوث بغدادی، پیر ظہیر الحسن، مولانا شرف الدین، انجینیئر حفیظ اللہ علوی، مولانا عبدالرزاق، محمد بدر منیر، قاری اشرف، محمد اکبر، مظفر حسین، محمد عمر اور مزمل حسین شامل ہیں۔

عدالت نے تمام ٹی ایل پی رہنماؤں کو ایک، ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔

20 سے زائد مقدمات، جنہیں اکٹھا کردیا گیا تھا، میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے کمرہ نمبر ایک اور 3 میں بالترتیب جج اعجاز احمد بٹر اور جج حسین بھٹہ نے کی۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کو ’کالعدم‘ کی فہرست سے نکالنے کیلئے پنجاب کابینہ کا لائحہ عمل تیار

دوران سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس مرحلے پر ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔

عدالت میں ٹی ایل پی رہنماؤں کی نمائندگی مختلف وکلا نے کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ صوبائی دارالحکومت میں مظاہرے کے دوران پرتشدد واقعات میں کم از کم 3 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد مظاہرہ کرنے والے ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

عدالت نے ان تمام مقدمات میں انہیں ضمانت دے دی۔

ٹی ایل پی اور پولیس کے درمیان جھڑپ

ٹی ایل پی نے 20 اکتوبر کو لاہور میں حکومت پنجاب پر اپنے سربراہ مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے احتجاج کے تازہ ترین دور کا آغاز کیا تھا۔

سعد رضوی کو 12 اپریل سے پنجاب حکومت نے ’امن عامہ کو برقرار رکھنے‘ کے لیے حراست میں رکھا ہوا ہے۔

تاہم ٹی ایل پی رہنما پیر اجمل قادری نے بعد میں کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام‘ تھا جبکہ انہوں نے سعد رضوی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی مظاہرین نے جی ٹی روڈ کھول دیا، سعد رضوی کی رہائی تک وزیر آباد میں دھرنا جاری

لاہور میں پولیس کے ساتھ تین روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد ٹی ایل پی نے 22 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کیا۔

لاہور اور گوجرانوالہ میں مارچ کے دوران تصادم کے دوران 5 پولیس اہلکار شہید اور مارچ کے شرکا اور پولیس دونوں کے سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

ٹی ایل پی کی قیادت نے 30 اکتوبر کو مظاہرین سے کہا کہ وہ وزیر آباد میں قیام کریں اور مزید ہدایات کے لیے انتظار کریں جب حکومت اور تنظیم نے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔

31 اکتوبر کو حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے دعویٰ کیا کہ وہ کالعدم تنظیم کے ساتھ 'معاہدہ' پر پہنچ چکے ہیں لیکن اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ٹی ایل پی کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حکومت، ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف معمولی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گی تاہم انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔

انہوں نے ٹی ایل پی کی قیادت کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ کالعدم تنظیم کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کو غیر منجمد کر دے گی اور تنظیم پر لگی پابندی ہٹانے کے لیے اقدامات کرے گی۔

پابندی کا خاتمہ

وفاقی حکومت کی اسٹیئرنگ کمیٹی اور پنجاب کابینہ کی کمیٹی برائے قانون کی سفارشات کے بعد صوبائی حکومت نے کابینہ کے اراکین کو ایک سمری بھیجی جس میں ٹی ایل پی پر سے پابندی جلد از جلد اٹھانے کی منظوری طلب کی گئی۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اگر تین دنوں میں کسی وزیر سے رائے/ منظوری نہیں لی جائے گی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وزیر نے سمری میں شامل سفارشات کو قبول کر لیا ہے‘۔

معاملے کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ذرائع کے مطابق تمام صوبائی وزرا نے فوری طور پر وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کو اپنی منظوری سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘

پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اب صوبائی کابینہ سے منظوری کو حتمی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو بھیجیں گے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ ’وفاقی کابینہ پابندی منسوخ کرنے کی منظوری دے گی اور پھر وزارت داخلہ اسے نوٹیفائی کرے گی‘۔

جہاں وفاقی حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے کے بعد تقریباً 2 ہزار 100 ٹی ایل پی کارکنوں کو پولیس کی حراست سے رہا کیا گیا ہے، وہیں تنظیم کے کالعدم ہونے کی حیثیت کی منسوخی سے ٹی ایل پی کے تقریباً 8 ہزار کارکن خود بخود فورتھ شیڈول سے خارج ہو جائیں گے۔

فورتھ شیڈول ایک ایسی فہرست ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کے جرم میں مشتبہ افراد کو رکھا جاتا ہے۔

نیب نے مالم جبہ لیز کیس میں پرویز خٹک کو کلین چٹ دے دی

کیریئر کا پہلا ایوارڈ جیتنے پر سونیا حسین آبدیدہ ہوگئیں

’طوبیٰ اب بھی میری بیوی ہے‘، طلاق کی افواہوں پر عامر لیاقت کا ردعمل