پاکستان

شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کا مطلب ہے کرپشن تسلیم کر لی، وزیراعظم

میری دو خاندانوں سے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ دوستی ہوا کرتی تھی، اکادمی ادبیات پاکستان میں تقریب سے خطاب

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری دو خاندانوں سے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ دوستی ہوا کرتی تھی لیکن اگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ہاتھ ملا لیا تو اس کا مطلب ہے کہ کرپشن تسلیم کر لی۔

اکادمی ادبیات پاکستان میں ’ایوان اعزاز‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مسلمانوں کا سنہری دور شروع ہوا تو البیرونی اور ابن بطوطہ جیسے دانشوروں کا بڑا مقام تھا اور وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے ان کی بہت قدرومنزلت کی جاتی تھی۔

مزید پڑھیں: ریاست مدینہ میں میرٹ کی بالادستی تھی، قابلیت پر لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے تھے، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ جب کوئی تہذیب ترقی کرتی ہے تو اس کے رول ماڈل دانشور بن جاتے ہیں کیونکہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے، ان کا قبلہ درست کرتے ہیں اور جب اسکالرز غلط راستے پر چلے جاتے ہیں تو تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں لہٰذا اگر دانشور درست رہنمائی کریں تو تہذیبیں زوال پذیر نہ ہوں لیکن اسکالرز بھی غلط راستے پر چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دانشور قوم کے نظریے کا تحفظ کرتے ہیں، علامہ اقبال کے ساری دنیا میں مسلمانوں پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ بے مثال تھے اور آج کے پاکستان میں دانشوروں کی بہت ضرورت ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں کو اسلام کی تاریخ کا ہی نہیں پتہ، لوگوں کو جنگیں یاد ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اتنا بڑا انقلاب جنگوں کی وجہ سے نہیں آیا، اس انقلاب کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا نبی اکرمﷺ کے دور میں 622 سے 632 ہجری تک 10 سال کے دوران صرف 1400 لوگ جنگوں میں مرے تھے جس میں 600 مسلمان شہید ہوئے تھے اور وہ ڈیڑھ سو مربع میل پر پھیل چکے تھے تو اسلام تلوار سے نہیں آیا تھا بلکہ دراصل وہ فکری انقلاب تھا، لوگوں کے کردار بدل گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے، ٹک ٹاک صارفین کو قانونی مواد کی فراہمی کیلئے طریقہ کار وضع کرنے پر متفق

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام کے اس فکری انقلاب کے بارے میں بتانا اب انتہائی ضروری ہے کیونکہ اب انہیں میڈیا اور سوشل میڈیا کی یلغار کا سامنا ہے، انسانی تاریخ میں بچوں اور نوجوان کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا، آج بچوں کو زیادہ تر معلوماتی اور مثبت مواد دستیاب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایسے مواد کا بھی سامنا ہے جس کا انسانی تاریخ میں بچوں نے کبھی سامنا نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں نوجوانوں کو درست راہ پر رکھنا ہے تو اب دانشوروں کے ساتھ ساتھ فلم اور ٹی وی پروڈیوسرز کی بھی بہت زیادہ ذمہ داری بنتی ہے، ہم میڈیا کو بند نہیں کر سکتے کیونکہ سوشل میڈیا حقیقت ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کبھی کبھار مجھے شکایت آتی ہے کہ یوٹیوب یا ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو نکل آئی ہے، ہم پی ٹی اے کو کہہ کر وہ بلاک کراتے ہیں تو اگلے دن کوئی اور مواد نکل آتا ہے، ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے مواد سے انہیں کیسے نمٹنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بہت بری طرح نیچے گری ہے، نبی اکرمﷺ کے انقلاب کی بنیاد ہی اخلاقیات تھی کہ اچھائی کو سراہا جائے اور برائی کی مذمت کی جائے، جب ایک قوم اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے اور برائی کو تسلیم کر لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کرپشن کو تسلیم کر بیٹھے ہیں، میری دو خاندانوں سے ذاتی لڑائی نہیں بلکہ دوستی ہوا کرتی تھی، مجھے سب کہتے ہیں کہ آپ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاتے، اس پر اربوں روپے کے کیسز ہیں اور اگر میں اس سے ہاتھ ملاتا ہوں تو میں معاشرے کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ میں نے کرپشن کو تسلیم کر لیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انگلینڈ میں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جس رکن اسمبلی پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو اسے کوئی اینکر اپنے پروگرام میں بلائے یا وہ اسمبلی میں دو، دو گھنٹے کی تقریر کرے کیونکہ ان کے معیار ہم سے مختلف ہیں اور اس لیے میں نے رحمت اللعالمینﷺ اتھارٹی بنائی۔

عمران خان نے کہا کہ رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی بنانے مقصد یہ ہے کہ ہم بچوں کو رول ماڈل دے سکتے ہیں اور بچوں کا رول ماڈل وہ ہے جو دنیا کی تاریخ کے سب سے عظیم لیڈر ہیں، ہمیں بچوں کو بتانا چاہیے کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر میں ایسی کونسی خوبیاں تھیں جس نے ان سے دو سپر پاور کے سامنے کھڑا کر کے دنیا کی امامت کرا دی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے کی خلاف بہتر بنانی ہے تو ہمیں نبی اکرمﷺ کی سیرت کے اوپر پروگرام کر کے بچوں کو متبادل پیغام دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کی آزادی متاثر ہے، رپورٹ

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاشرے کے لیے ایک فکری انقلاب چاہیے، ہمیں اخلاقیات چاہئیں، ہمارے لیے انتہائی شرمناک چیز ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں، تین سال پہلے زینب کیس ہوا تھا تو پورا ملک کھڑا ہو گیا تھا لیکن آج کل کہیں بچوں سے زیادتی تو کہیں خواتین سے ریپ ہو رہا ہے لیکن کوئی ردعمل نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑی تعداد میں رونما ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلمیں 40 سال میں بہت بدلی ہیں اور اس کے اثرات ان کے خاندانی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں، دلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے اور اگر ہم وہی ثقافت اپنائیں گے تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے لہٰذا یہ دانشور کا کام ہے کہ وہ معاشرے کی رہنمائی کریں اور متبادل طرز زندگی کے بارے میں بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت دانشوروں اور مصنفین کی مکمل حمایت اور مدد کرے گی اور میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کی رہنمائی کریں گے۔

کوئٹہ: 80 سالہ شخص نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی

سیمی فائنل میں بھارت اپنی جگہ کس طرح پکی کرسکتا ہے؟

'ابھی تو دبئی جارہا ہوں۔ شام کو آتا ہوں پھر ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں'