نور مقدم قتل کیس: ’غلط الفاظ‘ پر جج نے ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کی جانب سے مسلسل ’غلط الفاظ‘ استعمال کرنے پر انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام ملزمان پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے
دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر نے متعدد مرتبہ کچھ کہنے کی کوشش کی۔
کمرہ عدالت میں ملزم ’حمزہ‘ کا نام پکارتا رہا اور کہا ’یہ میرا کورٹ ہے، میں نے ایک چیز کہنی ہے‘۔
اس دوران پولیس ملزم کو زبردستی کمرہ عدالت سے باہر لے کر جانے لگی تو ظاہر جعفر نے کہا کہ کمرہ عدالت میں رہ کر مجھے جج کو کچھ کہنا ہے۔
بعدازاں مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ میں اب نہیں بولوں گا اور وہ دروازے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔
اس دوران نقشہ نویس عامر شہزاد پر ذاکر جعفر کے وکیل کی جرح نہ ہو سکی اور جونیئر وکیل نے کہا کہ ایڈووکیٹ بشارت اللہ جب آئیں گے تو جرح کریں گے جبکہ باقی ملزمان کے وکلا نے نقشہ نویس پر جرح مکمل کر لی۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر
مرکزی ملزم ظاہر جعفر عدالت میں رہ کر مسلسل بولتا رہا کہ کمرہ عدالت میں میرے سمیت فیملی کے افراد انتظار کر رہے ہیں۔
کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر ملزم ظاہر جعفر نے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا کہ ’پردے کے پیچھے کیا ہے‘۔
ظاہر ذاکر جعفر مسلسل کہتا رہا کہ ’پردے کے پیچھے کیا ہے، میں اور میری فیملی انتظار کر رہے ہیں‘۔
جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ ملزم ڈرامے کر رہا ہے، اسے کمرہ عدالت سے باہر لے جائیں۔
پولیس کی جانب سے ملزم کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کی کوشش میں ظاہر جعفر نے انسپکٹر مصطفیٰ کیانی کا گریبان پکڑ لیا۔
اس کوشش کے دوران ظاہر جعفر قابو نہ آسکا تو مزید پولیس اہلکاروں کو طلب کرکے ملزم کو اٹھا کر بخشی خانہ لے جایا گیا۔
اس سے قبل عدالت میں استغاثہ کے گواہ نقشہ نویس کا بیان قلمبند کیا گیا، گواہ نے کہا کہ گواہی میں 161 کے بیان کی تاریخ اور نوٹ میرے لکھے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر
جس پر وکیل نے کہا کہ نقشہ آپ کا اپنا تیار کردہ ہے اور آپ نے درست تیار کیا تھا۔
گواہ نے کہا کہ نقشہ میں نے موقع پر انسپکٹر کی ہدایت پر تیار کیا تھا اور اسے درست کہا تھا۔
سماعت ملتوی کرنے سے قبل عدالت نے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کو کٹہرے میں طلب کیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے بچے کو سمجھائیں، وہ کمرہ عدالت میں کیا کہہ رہا ہے۔
جس پر ملزم کی والدہ نے ظاہر جعفر کی ذہنی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس کی حالت کیا ہے۔
ملزم کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ ’ہم اس کا علاج کرا لیتے ہیں‘۔
جس پر جج نے ریمارکس دے کہ ملزم کو آرام سے سمجھائیں۔
بعد ازاں عدالت نے ڈاکٹر، کرائم سین انچارج اور دو برآمدگی کے گواہان کو طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 10 نومبر تک ملتوی کردی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو انہیں اپنی بیٹی نور مقدم کو گھر سے غائب پایا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند پایا اور اس کی تلاش شروع کی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہے اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔
20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے متاثرہ کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔
اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔