صحافیوں پر حملوں سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں
اسلام آباد: گزشتہ روز ملک بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نے صحافیوں پر حملوں اور دھمکیوں سے متعلق ڈیٹا ریکارڈ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں حکام نے پاکستان میں میڈیا کی حالت کی ایک امید دلانے والی تصویر پیش کی تاہم اس موقع پر پیش کیے گئے حقائق نے ملک میں صحافت کی تشویشناک منظر کشی کی۔
رواں سال اس بین الاقوامی دن کا موضوع صحافیوں کے خلاف تشدد اور جرائم کے خطرات کا مقابلہ کرنا تھا تاکہ سب کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ غزالہ سیفی نے کہا کہ میڈیا معاشرے کا ایک طاقتور طبقہ ہے اور اسے مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاکستان، مقتول صحافیوں کے ملزمان کو کٹہرے میں نہ لانے والے ممالک میں شامل
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ایسی خبریں شائع کرنا مناسب نہیں ہوتا جو ریاست یا عوام کے مفاد میں نہ ہو۔
مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے خیال کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک مضبوط ریگولیٹری ادارہ ہونا چاہیے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی اے بل کا مسودہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کیا جائے گا اور اسے اتفاق رائے سے ہی حتمی شکل دی جائے گی۔
واضح رہے کہ پبلشرز، مالکان، ایڈیٹرز اور صحافیوں کی نمائندگی کرنے والے تمام اداروں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی قانون کو اجتماعی طور پر مسترد کر دیا ہے تاہم حکومت اب بھی اسے متعارف کرانے پر زور دے رہی ہے۔
تقریب میں خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
پارلیمانی سیکریٹری نے کہا کہ اس رجحان کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کی رپورٹنگ کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تمام متاثرین کی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ آگے آئیں اور اپنی رپورٹس درج کرائیں جس سے ہراساں کرنے والوں اور خلاف ورزی کرنے والوں پر دباؤ پڑے گا‘۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں 2020 میں 50 صحافیوں کو قتل کیا گیا، آر ایس ایف
وزارت اطلاعات کے انٹرنل پبلسٹی کے ڈائریکٹر جنرل منظور میمن نے میڈیا سے متعلق قوانین کی وضاحت کی اور کہا کہ ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تنظیموں کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے۔
نیشنل پولیس بیورو کے ڈی آئی جی ثاقب سلطان نے تسلیم کیا کہ ضلعی پولیس افسران میڈیا نمائندوں کو دھمکیاں موصول ہونے کے بارے میں جانتے ہیں تاہم وہ قانون کے مطابق کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو آن لائن اور جسمانی خطرات سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔
یونیسکو کی جانب سے ملک کی نمائندہ اور ڈائریکٹر پیٹریشیا میک فلپس نے کہا کہ پاکستان میں 1997 سے اب تک 84 صحافی مارے جا چکے ہیں، صحافت پر دباؤ کی وجہ سے جمہوری گفتگو کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔
انہوں نے میڈیا نمائندوں بالخصوص خواتین صحافیوں پر ذاتی نوعیت کے حملوں کے نئے رجحان پر افسوس کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استثنیٰ کی سطح انتہائی بلند، 87 فیصد ہے۔
2016-2020 کے دوران یونیسکو نے 400 صحافیوں کاقتل ریکارڈ کیا تھا تاہم یہ تعداد اس سے گزشتہ پانچ سالہ مدت کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد کم تھی۔